گواہی دیا کریں

قارئین کرام! گذشتہ کالم میں عدل و انصاف پر خود قائم رہنا اور دوسروں کو اس پر قائم رکھنے کا حکم بیان ہوا تھا۔ انسان کو عدل و انصاف سے روکنے اوراپنے وجود کو ظلم میں مبتلا کرنے کے عادتاً دو سبب ہوا کرتے ہیں۔ ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں، عزیزوں کی طرف داری۔ دوسرا کسی شخص کی دشمنی و عداوت۔ اسی لیے قرآن کریم نے حکم دیا کہ عدل وانصاف پر قائم رہو، چاہے وہ عدل و انصاف کا حکم خود تمہارے نفوس یا تمہارے والدین اور عزیزوں و اقارب کے خلاف پڑے۔ نیز معاملہ دوستوں سے ہو یا دشمنوں سے، عدل و انصاف کے حکم پر قائم رہو، تاکہ نہ کسی تعلق کی رعایت سے اس میں کمزوری آئے اور نہ کسی دشمنی و عدات سے۔
دوسری ہدایت قرآن نے یہ دی ہے کہ سچی شہادت اور حق بات بیان کرنے سے پہلو تہی نہ کی جائے۔ تاکہ فیصلہ کرنے والوں کو حق اور صحیح فیصلہ کرنے میں دشواری پیش نہ آئے۔
ایک آیت میں نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے: ’’یعنی گواہی کو چھپاؤ نہیں اور جو شخص چھپائے گا، اس کا دل گنہگار ہوگا۔‘‘ اس آیت سے سچی گواہی دینا واجب اور اس کا چھپانا سخت گناہ ثابت ہوا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو سچی گواہی دینے سے روکنے والی چیز دراصل یہ ہے کہ گواہ کو بار بار عدالتوں کی حاضری اور فضول قسم کی وکیلانہ جرح سے سابقہ پڑجاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کا نام کسی گواہی میں آگیا، وہ گویا ایک مصیبت میں مبتلا ہوگیا۔ اپنے کاروبار سے گیا اور مفت کی زحمت میں مبتلا ہوا۔ اس لیے قرآنِ کریم نے جہاں سچی گواہی دینے کو لازم و واجب قرار دیا۔ وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اور گواہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘‘ آج کی عدالتوں اور ان میں پیش ہونے والے مقدمات کی اگر صحیح تحقیق کی جائے، تومعلوم ہوگا کہ سچے گواہ شاذ و نادر ہی کہیں ملتے ہیں۔ سمجھ دار شریف آدمی جہاں کوئی ایسا واقعہ دیکھتا ہے، وہاں سے بھاگتا ہے کہ کہیں گواہ کے طور پر نام نہ آجائے۔ پولیس اِدھر اُدھر کے گواہوں سے خانہ پری کرتی ہے اور نتیجہ اس کا وہی ہوسکتا ہے جو دن رات مشاہدہ میں آرہا ہے کہ دس پانچ مقدمات میں بھی حق و انصاف پر فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف عدالتیں بھی مجبور ہیں۔ جیسی شہادتیں اُن کے پاس پہنچتی ہیں، وہ انہی کے ذریعہ کوئی نتیجہ نکال سکتی ہیں اور انہیں کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتی ہیں۔ گواہ کے لیے کچھ باتوں کا لحاظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیے اپنی آخرت کی زندگی خراب نہیں کرنی چاہیے۔ ہر جگہ، ہر حال میں ہر بات کرتے ہوئے حق و انصاف کا خیال رہنا چاہیے کہ گواہ کو جو بات یقینی طور پر معلوم ہو، وہ صاف صاف کہہ دے۔ اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی نہ کرے۔ اپنی اٹکل اور گمان کو دخل نہ دے اوراس کی فکر نہ کرے کہ اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا اور کس کو نقصان۔
جھوٹی گواہی کے متعلق ابو داؤد اور ابن ماجہ نے رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے۔ یہ تین مرتبہ فرمایا اور پھر قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’بت پرستی کے گندہ عقیدہ سے بچواور جھوٹ بولنے سے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔‘‘ اس آیت میں جھوٹ بولنے سے مراد جھوٹی گواہی ہے۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔