حالیہ سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ نون کی واضح برتری کے باوجود پی پی پی اور پی ٹی آئی نے میدان مار لیا ہے۔ چھپن کے مقابلے میں صرف چوالیس ووٹ کاسٹ ہوئے۔ مسلم لیگ کے بنیادی ووٹ 54 تھے لیکن آخری اطلاعات تک اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایک طرف سینٹ میں سینیٹرز کو کامیاب کرانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی اطلاعات سامنے آئیں، تو دوسری طرف حیرانی ہوتی ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کامیاب سینیٹرز کے ووٹ دوسری طرف پول ہوئے۔ الزامات لگائے گئے کہ جمہوریت کا قتل ہوا، آج واقعتا بھٹو اور بینظیر شہید ہوگئے، جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا، بالا دست طبقات جیت گئے، سینٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے، جیتنے والوں کو شرم آنی چاہئے، وعلیٰ ہذالقیاس۔
اس سارے منظر نامے میں نیک شگون جس کی توقع کسی کو نہیں تھی، وہ یہی تھی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بلوچستان کے احساسِ محرومی کو ختم کرانے کے لیے چیئرمین سینٹ کے انتخاب کی خاطر صادق سنجرانی کا نام غیر مشروط طور پر تجویز کر دیا،جس پر شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے توسط سے ’’ہاں‘‘ کہہ دیا۔ یوں بالواسطہ دونوں پارٹیاں تاریخی طور پر پہلی بار ایک ہی مقصد کے لیے اکھٹی ہوگئیں۔ زرداری نے بھی کمال سیاسی مہارت کا ثبوت دیا اور عمران خان کے تجویز کردہ امیدوار کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پی پی پی بہرحال اپنی سیاست میں کامیاب ہوگئی۔ اگرچہ پی ٹی آئی بھی کامیاب ہوئی لیکن اس کامیابی کا کریڈٹ خود نہیں لیا اور نہ ہی اپنا کوئی موزوں امیدوار سامنے لایا۔
سینٹ کے انتخابات سے مستقبل کا منظر نامہ باآسانی سمجھ میں آسکتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ان صفحات میں راقم نے بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا ممکنہ اتحاد ہوسکتا ہے۔ اب اس اتحاد کو ’’سٹریم لائن‘‘ کرانے کے لیے لیڈر شپ کا کمال اور بازی گری دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر اتحاد ہوتا ہے، تو مشکل نہیں اور آسانی کے ساتھ اتحادی حکومت بنائی جاسکتی ہے، جو کہ میرے خیال میں فیڈریشن اور فیڈریٹنگ یونٹس کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔
سیاست میں حرفِ آخر نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ سیاست میں ملک و قوم کے مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس میں اپنی ذاتی پسند و نا پسند کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ منشور اور اصول دیگر شے ہوتے ہیں۔ نظریاتی سیاست وہ ہوتی ہے جس میں اپنے منشور کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے اہداف مقرر کیے جاتے ہیں۔ سیاست نام ہے سمجھوتا کرنے کا، اس لیے اس میں سمجھوتا اپنے منشور اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
مجھے قطعی طور پر کوئی حیرانی نہیں کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں سینٹ کے چیئرمین کے لیے جیسے تیسے اتحاد ہوگیا بلکہ مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس اتحاد کو کھلے بندوں بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ حالاں کہ عمران خان نہیں چاہتے ہیں کہ اس کا اتحاد کسی اور پارٹی کے ساتھ ہوجائے۔ وہ اکیلے پرواز کے عادی ہیں۔ مروجہ سیاست میں قربانی اور سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔اگر عمران خان کسی کو ساتھ نہیں ملاتے، تو شاید پھر ممکن نہیں ہوگا کہ اس کے وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے۔ کسی کو مغالطہ میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس طرح کسی لیڈر کی پاکستانی ترقی پر مشکوک نظر غیر منصفانہ بات ہوگی۔ اگر کوئی الزام لگائے کہ یہی زرداری تھا جس پر عمران خان نے کرپشن کے الزامات لگائے ہیں اور اس کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہیے، تو یہ مفروضہ قابل عمل نہیں ہوسکتا۔ ماضیِ قریب میں زرداری پر کرپشن کے الزامات لگنے کا معاملہ دیگر معاملہ ہے، کیوں کہ کسی بھی مجاز عدالت سے اس بابت اس کو سزا نہیں ہوئی ہے۔ اور نہ ہی الزامات سچ ثابت ہوئے ہیں۔
عمران خان کا معاملہ کچھ جداگانہ ہے۔ عمران خان پر کرپشن کے الزامات نہیں بلکہ کرپشن پر سیاست کرنا اس کا پولی ٹیکل سلوگن ہے۔ عمران خان اگر اب تک پیپلز پارٹی سے کوئی سمجھوتا نہیں کر رہا تھا، تو اس کے پیچھے کارفرما سوچ یہی تھی کہ پیپلز پارٹی درپردہ طور پر مسلم لیگ نون کو چارٹر آف ڈیمو کریسی کے تحت سپورٹ کر رہی تھی۔ اس لیے کسی طرح یہ ممکن نہیں تھا کہ عمران خان اس پر اعتماد کرتے۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کس طرح مسلم لیگ نون کو جنرل کیانی اور چیف جسٹس نے حکومت دی ہے، جس طرح جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے خلاف اتحاد کی آڑ میں ہر محاذپر سیاست کی ہے اور درپردہ طور پر پی ٹی آئی کی بیخ کنی کی ہے، شاید ہی کسی نے پی ٹی آئی کو اتنا بھاری نقصان پہنچایا ہو۔ اب تو جماعت برملا طور پر مسلم لیگ کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے۔ حالاں کہ یہ وہی جماعت ہے جس نے نواز شریف پر پانامہ کا کیس کیا تھا اور اس کو نااہل کر دینے میں اس کا ہرا ول دستے کا کردار ہے۔ جماعت اگر ایک طرف صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت کی اتحادی ہے، تودوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے ساتھ آئندہ کے سیاسی سیٹ اَپ کے لیے بھی اتحاد کرلیا ہے۔صف بندی ہوگئی ہے۔ اے این پی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، پختونخوا میپ، مسلم لیگ ایک طر ف جب کہ دوسری طرف سینٹ کے کامیاب اتحادی۔
میرا خیال ہے کہ سرِدست عمران خان سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں بازی جیت گئے ہیں۔ عمران خان اب تک کی اپنی سیاسی تاریخ میں بس یہی میچور سیاست کرگئے۔ زرداری، سلیم مانڈی والا پر بضد تھے اور نواز شریف راجہ ظفر الحق اور پیپلز پارٹی کے رضا ربانی پر، مگر دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں ناکام ہوگئیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ اگر عمران خان کھلے بندوں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے، تو شائد اس کا کوئی سینٹر اچھے عہدے پر آجاتا۔
اب جب بلوچستان کے صادق سنجر انی چیئرمین منتخب ہوگئے، تو بالادست طبقات کے اثر و نفوذ کا رونا رویا جاتا ہے اور انتخابات پراس قسم کے اثرات کو نمایاں کیا جانے لگا ہے۔
………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔