پاکستان الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کر دی ہے۔ یہ حلقہ بندیاں مردم شماری 2017ء کے تحت ہوئی ہیں۔ اس بار قومی اسمبلی کا حلقہ این اے ون اور خیبر پختونخواہ صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے ون چترال سے شروع کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں خیبر پختونخواہ کی نشستیں پینتیس سے بڑھا کر انتالیس کر دی گئی ہیں۔ البتہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں ننانوے برقرار رکھی گئی ہیں۔ حالیہ مردم شماری میں خیبر پختونخواہ کی آبادی تین کروڑ پانچ لاکھ تیٔس ہزار تین سو اکہتر ہے۔ ننانوے صوبائی سیٹوں کی تقسیم سے پتا چلتا ہے کہ حلقے کا تناسب تین لاکھ آٹھ ہزار تین سو سترہ ووٹرز بنتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخواہ کے ایک صوبائی حلقے کے لیے ووٹرز کی تعداد تین لاکھ آٹھ ہزار تین سو سترہ مقرر کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ان نئی حلقہ بندیوں پر شکایات کے لیے تین اپریل تک کا وقت دیا گیا ہے۔ احتجاجی مظاہروں اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں میں مشاورت جاری ہے، تاکہ مجوزہ حلقہ بندیوں پر ہونے والی شکایات کا اِزالہ کیا جاسکے۔ چوں کہ حلقہ بندیاں ووٹرز کے تناسب سے ہوتی ہیں۔ پھر بھی چترال سے ایک صوبائی حلقہ کم ہونے کے خلاف صوبائی اسمبلی میں قرارداد جمع کی گئی ہے۔
اس طرح حالیہ حلقہ بندیوں سے تحصیل ادینزائی کے عوام اور سیاسی نمائندے بھی نالاں ہیں۔ تحصیل ادینزائی میں یونین کونسل اسبنڑ، یونین کونسل تازہ گرام، یونین کونسل خانپور، یونین کونسل کوٹیگرام، یونین کونسل چکدرہ، یونین کونسل اوچ، یونین کونسل باڈوان اور یونین کونسل خادگزائی کے علاقے شامل ہیں۔ تحصیل ادینزائی سے یونین کونسل اوچ کو نکال کر ایک حلقہ پی کے 14 بنایا گیا ہے۔ جب کہ یونین کونسل اوچ کو تحصیل تیمرگرہ اور یونین کونسل بلامبٹ سے ملا کر ایک حلقہ پی کے 15 بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یونین کونسل اوچ اور تحصیل تیمرگرہ کے بیچ میں یونین کونسل کوٹیگرام اور یونین کونسل خادگزائی واقع ہے، یعنی جغرافیائی طور یونین کونسل اوچ، تحصیل تیمرگرہ سے ملا ہوا نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں گذشتہ دنوں تحصیل ادینزائی کے سیاسی نمائندوں کا مشترکہ آل پارٹیز اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ایک کور کمیٹی کی تشکیل کی گئی، جس کو اس مسئلہ کے حل کے ذمہ داری سونپ دی گئی۔
چھیالیس ہزار چھے سو نفوس پر مشتمل یونین کونسل اوچ، ضلع دیر پائین کا سب سے بڑا یونین کونسل ہے۔ سیاست میں اس علاقے کو خاص مقام حاصل ہے۔ گذشتہ تمام انتخابات کا انحصار اس علاقے پر ہوتا چلا آیا ہے۔ اس وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں نے یہاں پر کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری بات، صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدواروں کا زیادہ تر تعلق اوچ سے ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ضمن میں ایک ہی جماعت کے دو امیدوار آمنے سامنے ہو جائیں گے، جو سیاسی جماعتوں کے لیے کافی دردِ سر ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے مجوزہ ووٹرز کی تعداد کی بنیاد پر یونین کونسل اوچ کو یونین کونسل بلامبٹ اور تحصیل تیمرگرہ کے ساتھ شامل کیا ہے، لیکن اگر دیکھا جائے، تو این اے ون چترال میں مطلوبہ ووٹرز کی تعداد پورا نہ ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بنایا گیا ہے۔ مزید نو لاکھ چھیالیس ہزار کی آبادی کے ضلع دیر بالا کو بھی ایک حلقہ دیا گیا ہے۔ اگر کچھ حلقوں میں مطلوبہ ووٹرز کی تعداد میں کمی بیشی سے اسے ایک حلقہ بنایا جا سکتا ہے، تو یونین کونسل اوچ کو تحصیل ادینزائی میں برقرار کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟
یونین کونسل اوچ کو تحصیل ادینزائی میں برقرار رکھ کر یونین کونسل کوٹیگرام اور یونین کونسل خادگزائی میں سے کسی ایک کو شامل کیا جا سکتا ہے، جس سے مطلوبہ ووٹرز کی تعداد بھی پوری ہو سکتی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے یونین کونسل کوٹیگرام اور خادگزائی بھی تحصیل تیمرگرہ سے ملے ہوئے ہیں۔
یونین کونسل اوچ کو تحصیل تیمرگرہ کے ساتھ شامل کرنے سے کس طرح ایک نمائندہ اوچ کو کور کرسکتا ہے؟ علاقے کی دور افتادگی، شہری سہولیات کی کمی، سیاسی مزاحمت اور جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر اوچ ایک پسماندہ اور ناقابل توجہ علاقہ بن جائے گا۔
حلقہ بندیوں میں ایسے مسائل پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قائدین کس طرح اپنے کیس کو الیکشن کمیشن میں پیش کرتے ہیں اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں؟ زمینی حقائق کو مدِنظر رکھ کر الیکشن کمیشن ایسی درخواستوں کو رد نہیں کرے گا اور امید یہی کی جا رہی ہے کہ ایسے مسائل کا حل نکالا جائے گا۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔