چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (انیسواں حصہ)

ہم ’’پیس میموریل پارک‘‘ کے مختلف حصوں کی سیر کرتے ہوئے پیس میموریل میوزیم تک پہنچے، تو فرنٹ ڈیسک سے ٹکٹ خریدے اور اندر داخل ہوئے۔ اندر داخل ہوتے ہی ہم سیڑھیوں کے اوپر چڑھے اور ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے، تو بائیں جانب ہیروشیما شہر کی ایٹم بم سے پہلے کی تصویر نے ہمیں خوش آمدید کہا۔

ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے ہیروشیما شہر کا منظر۔ (فوٹو: فضل خالق)

میں نے جب تصویر کو دیکھا، تو جیسے میں ماضی میں کھو سا گیا۔ میں چھے دریاؤں کے اس تکون نما صاف و شفاف شہر میں داخل ہوا جو سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں عمارتیں مخصوص ڈیزائن اور سلیقے سے بنائی گئی ہیں۔ عمارتوں کے بیچوں بیچ دریا کے اوپر کشتیاں کچھ کھڑی ہیں اور کچھ چل رہی ہیں، جب کہ دوسرا دریا کچھ فاصلے پر متوازی بہہ رہا ہے۔ اب جب کہ صبح کا وقت ہے، تو یہاں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے والی ہیں۔ مختلف راستوں پر سکول کے بچے نظر آرہے ہیں۔ میں ایک تصویر سے دوسری تصویر میں داخل ہوا، تو سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں جن میں دو لڑکوں نے ایک دوسرے کے کاندھوں کے اوپر اس طرح ہاتھ ڈالے ہیں گویا دونوں جگری دوست ہیں۔ اوپر کھڑکی میں سے ان کے ٹیچر اور چند بچے باہر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام بچے اور بچیاں ایک ہی کلاس اور سکول کے لگ رہے ہیں جو اپنے ٹیچر کے ساتھ یہاں کی سیر کے لیے آئے ہیں۔ ان تمام معصوم چہروں پر مسکراہٹیں سجی ہوئی ہیں جو باغیچے میں مہکتے ہوئے پھولوں سے کم نہیں۔

تصویر جس میں استاد اپنے ننھے منے شاگردوں کے ساتھ مسکراہٹ بکھیر رہے ہیں۔ (فوٹو: فضل خالق)

دور ایک سویمنگ پول میں جوان لڑکے تیراکی کر رہے ہیں۔ میں تھوڑا آگے بڑھا، تو دوسرے ہی لمحے زوردار دھماکا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ تیراکی کرتے ہوئے لڑکے، فرشتہ صفت ننھے منے بچے اور ان کا استاد، دریا کی کشتیاں، بسیں اور ریل گاڑیاں سب ہوا میں روئی کی گالوں کی طرح اُڑیں اور جل کر راکھ ہوئیں۔ دریا میں خون بہنے لگتا ہے اور ہر طرف چیخ و پکار سنائی دینے لگتی ہے۔ سار ا شہر غضبناک آگ اور دھویں کی لپیٹ میں دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ اژدہا نما آگ رنگ بدلتا جاتا ہے، سرخ، سبز اور پیلا، جو انسانوں کے ساتھ شہر کی عمارتوں، درختوں، کشتیوں، پلوں سب کو نگل رہا ہے۔

بم گرائے جانے کے بعد دھویں کا اژدھا نما اٹھتا مرغولہ۔ (Photo: History Conflicts)

جب کہ ساتھ ساتھ جہنمی آندھی ہر ہلکی اور بھاری چیز کو بھسم کر تی دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ ہی لمحوں میں یہ ہنستا بستا شہر ویران ہوتا اور سب کچھ برباد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کئی کلومیٹر دور انسان بھی اس کے مضمرات سے نہیں بچ پاتے۔ گرم تپش اور تابکار شعائیں ان کے جسموں سے کھال اُدھیڑ رہی ہیں اور جو کوئی بھی سانس لیتا ہے، تو اگلے لمحے خون تھوکتا ہے۔ کچھ ہی لمحوں میں ان کی زندگی کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ ان میں کئی کے سر نہیں ہیں، تو کئی کے دوسرے اعضا غائب۔ آہ و بکا سے فضا بھری پڑی ہے۔ انسان ایسے تڑپتے دکھائی دیتے ہیں جیسے پانی کا تالاب یک دم سوکھ جائے اور تمام کی تمام مچھلیاں تڑپتی ہوئی جان دے دیں۔ یہ خوف و بربریت کی ایسی مثال ہے جو نہ پہلی کبھی سامنے آئی تھی اور نہ اس کے بعد ہی کبھی آسکتی ہے۔ یہ 6 اگست صبح کے سوا آٹھ بجے تھے۔ یہ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کا وہ بدترین دن تھا جب انسانیت خود انسان کے ہاتھوں رُل گئی تھی۔ نتیجتاً بدنصیب ہیروشیما شہر اور اس کے باسی امریکی ایٹم بم کے لیے تجربہ گاہ بن گئے۔ یہاں جب ہزاروں لوگ سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے، تو اوپر سے امریکی فوجی اور سائنس دان ان کی تصویر کشی اور ویڈیو ز بنا رہے تھے، تاکہ اس پہلے ایٹم بم کی شدت اوراثرات کی جانچ پڑتال کرسکیں۔ جب یہاں معصوم انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک ہو رہے تھے، تو وہاں کچھ لوگ انہیں فلم کی ایک سین کی طرح دیکھ کر لطف اٹھا رہے تھے۔
میں ویران ہیروشیما میں کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں انسانیت سے نفرت کرنے لگا تھا کہ حضرتِ انسان تباہی کے ایسے آلات بھی تیار کرسکتا ہے، جو چند لمحوں میں لاکھوں لوگ کو لقمۂ اجل بنا سکتے ہیں۔

جاپانی طلبہ و طالبات ہیروشیما عجائب گھر میں بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: فضل خالق)

اسی حال میں زمین میں نصب گول ویڈیو سکرین پرہیروشیما شہر پر ایٹم بم گرانے کی ویڈیو چل رہی تھی اور اس سے آگے تیسرے ہال میں ہیروشیما شہر کے وہ چند لوگ جو بم کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور کافی دیر تک زندہ رہے، ان کی ویڈیو انٹرویوز نشر ہورہی تھیں، جن میں مختلف لوگ اپنے تجربات اور آنکھوں دیکھا حال بتا رہے تھے۔ ہم نے کچھ انٹرویوز سنے اور پھر اگلے ہال میں داخل ہوئے جہاں ایٹم بم بنانے کی تاریخ سے لے کر موجودہ صورتحال تک معلومات تصویروں کی مدد سے لگائی گئی تھیں۔ ان میں پہلی اوردوسری جنگ عظیم کی روداد، ایٹمی توانائی یعنی ’’نیو کلیائی انشقاق‘‘ کی دریافت کا بھی ذکر ہے جسے دسمبر 1938ء میں جرمن سائنس دانوں ’’اوٹوہان اورلیز میت نر‘‘ نے دریافت کی۔ ایٹمی توانائی کو جنگی مقاصد کے ممکنہ استعمال کے لیے برطانیہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے 1941ء میں اس بات کی توثیق کی کہ ایٹم بم بنانا ممکن ہے۔ پھر اسی سال امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے اس کے لیے فنڈز مہیا کیے، تو یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنس نے اندازا لگایا کہ آئندہ تین یا چار سال میں ایٹم بم تیار ہوگا، جس پر امریکہ نے اس کی تیاری شروع کی۔

وہ دستاویز جس میں امریکی ریاست نے ہیروشیما کے اوپر بم گرانے کا حکم دیا ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

میوزیم میں مشہور امریکی سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے وہ خطوط بھی رکھے گئے ہیں، جو انہوں نے ایٹم بم کی تیاری کے حوالے سے امریکی صدر روز ویلٹ کو وقتاً فوقتاً لکھے تھے۔ میوزیم میں دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے کئی اہم دستاویزات بھی ہیں جن میں مختلف ممالک کے صدور اور وزرائے ا عظم کے درمیان ملاقاتوں کا حال احوال اور جاپان پر اٹیم بم کے حملوں کا تفصیلاً ذکر بھی موجود ہے۔ میں ہر اہم دستاویز پڑھتا گیا اور آگے چلتا گیا، تو اس خانے تک پہنچا جہاں لکھا تھا کہ 25 جولائی 1945ء کو امریکہ نے فیصلہ کیا کہ پہلا ایٹم بم تین اگست کو جاپان کے چند شہروں میں سے ایک پر گرایا جائے گا جن میں ہیروشیما، کوکورا، نیگاتایا ناگاساکی شامل تھے۔ تاہم 2 اگست کو فیصلہ کیا گیا کہ ہیروشیما پر 6 اگست کو بم گرایا جائے گا جس کے لیے مخصوص ٹیم تشکیل دی گئی اور انہیں ایٹم بم گرانے کی کئی دن مشق کرائی گئی اور بلآخر 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیماپرچارٹن وزنی پہلا ایٹم بم گرا کر اسے پور ی دنیا کے لیے بدترین مثال بنایا گیا۔ چوں کہ یہ بم لمبا اور پتلا تھا، اس لیے اس کا ابتدائی طور پر نام ’’تھن مین‘‘ یعنی پتلا آدمی رکھا گیا، تاہم بعد میں اسے ’’لٹل بوائے‘‘ یعنی چھوٹا لڑکا نام دیا گیا۔ یہاں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے موجودہ وقت تک کی معلومات مع تصاویر اور دستاویزات لگائی گئی ہیں۔ میں ذرا آگے بڑھا، تو میں نے پاکستانی نیوکلیئر سائنسدان عبدالقدیر خان کی وہ تصویر بھی دیکھی جب انہوں نے 4 فروری 2004ء کو ٹی وی پر اعتراف کیا کہ انہوں نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو دی ہے۔ اس کے بعد میوزیم میں وہ تصاویر پیش کی گئی ہیں جو درد سے بلبلاتے انسانوں کی ہیں۔ ایک طرف اگر ہزاروں انسانوں کی گلی سڑی لاشیں پڑی ہیں، تو دوسری طرف اُن زندہ لاشوں (خواتین اور بچوں) کی وہ اذیت ناک تصاویر ہیں جن میں یا تو ان کے چہرے مسخ ہوئے ہیں، اعضا لٹک رہے ہیں، جسموں پر عجیب و غریب قسم کی رطوبت بہہ رہی ہے یا ان کے منھ سے خون آلود رال ٹپک رہی ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد دیکھا، تو سارے لوگ مغموم تھے یا ان کی آنکھوں میں بے اختیار چھلک رہے تھے۔ میں نے اپنی دائیں طرف دیکھا، تو نینسی بھی ادا س تھی۔ میوزیم میں بچوں کے وہ باقی ماندہ کپڑے جو بم کی تباہ کاریوں سے چھلنی ہوگئے تھے یا جل گئے تھے، ان میں ایک بچے کی تین پہیوں والی زنگ آلود سائیکل بھی پڑی ہے جس کے ساتھ تین سالہ بچے کی تصویر بھی لگی ہے۔ اس کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ تین سالہ ’’سے نے شی‘‘ کو اپنی سائیکل بے حد پسند تھی۔ بم والے دن معصوم ’’سے نے شی‘‘ اپنے گھر کے سامنے سائیکل پر سوار تھا۔ اگرچہ ’’سے نے شی‘‘ کا گھر ہیروشیما میں بم گرنے کی جگہ سے دور تھا، مگر اچانک قیامت خیز بم کے دھماکے سے نکلنے والی تابناک شعاؤں نے اس کے جسم کو بری طرح جھلسا دیا اور وہ موقع پر مر گیا۔ ’’سے نے شی ‘‘ کے والد نے معصوم بچے کو اپنے گھر کے عقب والے صحن میں سائیکل سمیت دفنا دیا، تاکہ معصوم ’’سے نے شی‘‘ اپنے گھر اور سائیکل کو مس نہ کرے۔ تاہم 1985ء کو اس نے بچے کی ہڈیاں اور سائیکل نکال کر ہڈیوں کو قبرستان میں دفنا دیا اور سائیکل میوزیم کے حوالے کی۔

’’سے نے شی‘‘ کی زنگ آلود سائیکل۔ (فوٹو: فضل خالق)

یہ میوزیم اصل میں اس ہولناک واقعہ کی ایک ایسی فلم ہے جو چھے اگست اور اس کے بعد کی ہیروشیما کے تمام حقیقی واقعات منظر بہ منظر دکھاتی ہے۔ ہم جب میوزیم سے نکل رہے تھے، تو سب کی آنکھیں سرخ تھیں، سب پر سکوت کا عالم طاری تھا۔ (جاری ہے)

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔