سرے شاہ سر کی چوٹی پر پہنچ کر جیسے ہی آپ کی نظر ایک چھوٹی سی بارانی جھیل پر پڑتی ہے، تو جیسے ذہن عجیب کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آپ کے لیے بھی مشورہ ہے کہ جب یہاں آئیں، تو اس کیفیت کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ کیونکہ اس درہ کے حوالے سے ایک فرضی کہانی مشہور ہے کہ سکندرِ اعظم کی فوج نے منظم ہو کر یہاں سے ’’اُورنوس‘‘ پر چڑھائی کی تھی اور وہاں سے بونیر کے علاقے پر دستِ تصرف دراز کیا تھا۔
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے مذکورہ درہ پہنچتے ہی نہ جانے کیوں مجھے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سنائی دی۔ حالاں کہ اس موقعے پر وہاں گھوڑے کا دور دور تک کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ دوسرے ہی لمحے مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ یہاں مکمل طور پر سکوت ہے۔ اتنی خاموشی کہ دل کی دھڑکن تک سنائی دے۔ سادھو سَنت اگر آج کے دور میں دھونی رمانا چاہیں یا کسی کا مراقبہ کرنے کو دل چاہے، تو اس مقصد کے حصول کے لیے سرے شاہ سر جھیل سے بہتر کوئی اور جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔
سرے شاہ سر جھیل ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے نواحی علاقے منگلور کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ جھیل کی سیر کے لیے سوات کے مرکزی شہر سے لگ بھگ تیس سے پینتیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ شنگرئی گاؤں تک کا راستہ عام گاڑی کے ذریعے طے کیا جاسکتا ہے، جہاں تک سڑک کبھی کچی اور کبھی پکی ملے گی۔ یہاں شنگرئی کی خوبصورت آبشار بھی واقع ہے، جسے دیکھنے ملک کے طول و عرض سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ شنگرئی گاؤں سے آگے فور بائے فور گاڑی کے ذریعے سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر اوپر درہ سرے شاہ سر تک کچی سڑک تعمیر کی گئی ہے۔ یہ راستہ پُرخطر ہے، کئی جگہوں پُرعمیق گھاٹیوں کو دیکھتے ہوئے سیاحوں کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے اور کمزور دل آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یوں مینگورہ شہر تا درہ سرے شاہ کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ وہاں سے آگے جھیل تک کا راستہ ہایکنگ کر کے باآسانی ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک نارمل سی ہائیک ہے، اس دوران میں ہر آدھے گھنٹے بعد میٹھے پانی کا کوئی نہ کوئی جھرنا مل جاتا ہے۔ مئی کے آغاز میں بھی وہاں گھاٹیوں میں ذخیرہ شدہ برف دیکھی جاسکتی ہے۔ کُل ملا کر کہا جاسکتا ہے کہ سرے شاہ سر کی چوٹی یا جھیل تک ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔ درہ کی چوٹی سے پورے ضلع سوات کا نظارہ ایک مسحور کن احساس پیدا کرتا ہے۔ سرے شاہ سر کی چوٹی پر تین اضلاع (سوات، بونیر اور شانگلہ) کا سنگم بھی ہوتا ہے۔
اس حوالے سے سوات کے آثار قدیمہ پر لکھنے والے فضل خالق صاحب کی تحقیق کہتی ہے کہ یہ سیکڑوں سال سے تجارتی راستہ رہا ہے اور گمانِ اغلب ہے کہ یہاں سے سکندرِ اعظم نے ’’اُورنوس‘‘ پر حملہ کیا تھا۔ سرے شاہ سر دراصل ایک بارانی جھیل ہے ، جہاں مقامی مویشی پانی پینے کی غرض سے آتے ہیں۔ یہ کوئی قدرتی جھیل نہیں ہے۔ چوٹی کے اوپر واقع اس جھیل کی لمبائی ساڑھے دو یا تین سو میٹر جبکہ چوڑائی تقریباً پچاس میٹر ہو گی۔ برسات کے موسم میں جھیل منھ تک بھرجاتی ہے اور اسے چاروں طرف سے ایک بڑی چراہ گاہ نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اس کو بڑی مہارت سے ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں بظاہر پانی کے داخل یا خارج ہونے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ چونکہ پانی مہینوں تک ایک ہی جگہ پر کھڑا رہتا ہے اور اسے مویشی استعمال کرتے ہیں، اس لیے یہ عام استعمال کے قابل نہیں ہوتا اور گدلا دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ فضل خالق درہ اور خاص کر جھیل کی خاصیت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ بالکل قدرتی جھیل نہیں بلکہ اسے باقاعدہ طور پر انسان نے تعمیر کیا ہے ۔ اسکی ساخت کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ہندو شاہی دور (نویں دسویں صدی عیسوی) میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں کے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ سرے شاہ سر درہ میں کبھی بدھ مت اور ہندو شاہی دور کے فنِ تعمیر کے آثار بھی تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئے۔ یہاں ریاستی دور (ریاست سوات 1917تا 1969ء) کی ایک پولیس چوکی بھی تھی، جس کے آثار بھی اب معدوم ہو چکے ہیں۔ اس درہ کے دامن میں پتھر پر تراشی گئی بدھا کی شبیہ ہے، جسے ’’جہان آباد بدھا‘‘ کہتے ہیں۔ میرا اپنا اندازہ کہتا ہے کہ جب یہاں بدھ مت دور تھا، جیسا کہ فضل خالق صاحب کہتے ہیں، تب جھیل کی جگہ پر پانی کے لیے پہلے سے ایک جگہ موجود ہوتی ہوگی، جسے بعد میں ہندو شاہی دور میں از سر نو تعمیر کیا گیا ہوگا۔ مذکورہ وادی کے ساتھ ننگریال نامی ایک چھوٹا سا درہ بھی ہے جس کے بارے میں تاریخی کتب میں ذکر ہے کہ یہاں سکندر اعظم کی فوج کے کچھ سپاہی آئے تھے اور انہوں نے یہاں قیام کیا تھا۔ تاریخی کتب میں ذکر ملتا ہے کہ سکندر اعظم جب اپنی فوج کے ساتھ سوات آئے، تو انہوں نے اُورنوس پہاڑ پر چڑھائی کی تھی۔ آج تک گمان کیا جا رہا تھا کہ اُورنوس کا پہاڑ ضلع شانگلہ کا ’’پیر سر‘‘ ہے۔ چونکہ تاریخی کتب میں اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ سکندر اعظم کی فوج ضلع شانگلہ تک گئی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ درہ سرے شاہ سر کو انہوں نے اپنے راستے کے طور پر استعمال کیا ہوگا یا پھر انہوں نے شانگلہ سے واپسی کے لیے اس راستے کو استعمال میں کیا ہوگا۔ دوسری دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ درہ سرے شاہ سر سے ایک راستہ باآسانی ضلع بونیر تک جا نکلتا ہے، تو بعید نہیں کہ اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے شانگلہ سے سکندر اعظم نے بونیر پر چڑھائی کی ہو۔ فضل خالق کے مطابق تاریخ کا سب سے مستند حوالہ شانگلہ کے پہاڑ پیر سر کے بجائے ایلم پہاڑ کو ہی اُورنوس گردانتا ہے ۔ مذکورہ حوالے کی روشنی میں جب سکندر اعظم نے ایلم پہاڑ میں جنگ لڑی، تو وہاں سے بونیر پر چڑھائی کی اور اس کے بعد ’’ہنڈ‘‘ گئے۔
سرے شاہ سر جھیل پہنچ کر ہی آپ یہاں کے پرسکون ماحول کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہاں اب بھی دھونی رمانے یا مراقبہ کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ یہاں قبلہ رو کھڑے ہوکر پورے ضلع سوات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے، دریائے سوات تاحد نظر بل کھاتے سانپ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ماہ اپریل کے وسط میں آس پاس کی پہاڑی چوٹیاں برف پوش دکھائی دیتی ہیں۔ ساتھ چھوٹے بڑے جنگل سماں باندھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔