جب بھی میری نظر مینگورہ خوڑ پر پڑتی ہے، تو میں ماضی کے دریچوں میں کھو سا جاتا ہوں۔ مجھے اپنا بچپن اور لڑکپن یاد آجاتا ہے، جب ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ اسی خوڑ میں نہاتے تھے۔ پاک و صاف بہتے ہوئے پانی میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیرتی ہوئی کتنی بھلی لگتی تھیں۔ خوڑ کے ساتھ ہی لبِ سڑک اونچے اور گھنے درخت اور ان میں چہچہاتے پرندے، بہتے پانی میں مرغا بیوں کا تیرنا اور ان کی مسحور کن آوازیں بہت بھلی لگتی تھیں۔ خوڑ کے دونوں کناروں پر سبزہ زاروں، جنہیں ہم پشتو زبان میں ’’ٹانگ‘‘ بولتے ہیں، میں دور دور تک دھوبیوں کے سکھانے کے کپڑے کتنے پیارے لگتے تھے، بچوں کے کھیل، وہ ریت میں گھروندے بنانا اور پھر مٹانا مجھے اب بھی یہ سب کچھ یاد ہے۔ لیکن آج جب میں اس خوڑ کو دیکھتا ہوں، تو آنکھوں کو یقین نہیں آتا۔ اب وہ صاف و شفاف پانی کا ذخیرہ ایک بدبودار اور متعفن پانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کچرے کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو اس خوڑ کا مقدر بن گیا ہے۔ پلاسٹک اور شاپروں کا ایک مدفن ہے، گویا ایک بے گور و کفن لاشوں کا قبرستاں ہے جو اہلِ مینگورہ کے بے حسی پر نوحہ کناں ہے اور چیخ چیخ کر ہمیں پکار رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ
’’میں بھی تمہارے گھر کا آنگن ہوں، مجھے بھی صاف رکھو، مجھ سے اپنے گھروں اور گلیوں کے گندے نالے دور رکھو، اس کے لیے الگ نکاسی کا انتظام کرو، میں تو برفیلی چوٹیوں سے بہتا ہوا پانی تھا، میں تو پاک اور صاف چشموں سے نکلتا پانی تھا، مجھے ایک بار پھر اس قابل بناؤ کہ آپ سب کے کام آسکوں، اپنے کھیتوں کو میرے پانی سے سیراب کرو، لیکن نہیں، تمہارے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی، تمہاری آنکھوں پر خود غرضی کی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ مینگورہ اور سیدوشریف دونوں کی عارضی خوبصورتی (بیوٹیفکیشن) میں لگے ہوئے ہو، لبِ سڑک سرکاری دیواروں پر لیپا پوتی میں مصروف ہو، اس پر بیل بوٹے بنا رہے ہو، لیکن میری طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کہ میں ہی آپ کی اصل خوبصورتی ہوں، اگر مجھے صاف رکھوگے، تو تمہارے اوپر برکتیں نازل ہوں گی، پھر بارشوں کے لیے تمہیں آہ و زاری نہیں کرنا پڑے گی، تم ہروقت بارانِ رحمت سے مستفید ہوتے رہوگے، تم نے اپنے ماحول کو گندہ کیا، تم نے مچھروں اور مکھیوں کے لیے مجھے ایک طرح سے کالونی بنایا، تم نے میرے اردگرد درختوں اور سبزے کو برباد کیا، تم نے تو دریائے سوات کو بھی نہیں بخشا، تمہارے شہر کے خاکروب ہر روز صبح سویرے مجھ میں دنیا جہاں کا گند اکھٹا کرکے ڈالتے ہیں، یہ کام دریائے سوات کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے، میں اس کی آہ و بکا بھی سنتا ہوں، لیکن وہ میری طرح کمزور نہیں ہے، وہ جب انتقام پر اُتر آتا ہے، تو تمہارے کھیتوں اور گھروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے، ہاں! برسات میں، مَیں بھی کبھی کبھی اپنے کناروں پر بنی آبادیوں کی خبر لیتا ہوں، تمہارے گھروں میں گُھس جاتا ہوں، تمہارے مال و اسباب کا ستیا ناس کرتا ہوں، لیکن تم بڑے ڈھیٹ ہو، میرے گزرنے کے بعد بھی سیدھی راہ پر نہیں آتے، گرمیوں میں مجھ میں پلے ہوئے مچھراور مکھیاں تم پر حملہ آور ہوتی ہیں اور تم طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہو، اسپتال اور قبرستان تم سے بھر جاتے ہیں لیکن پھر بھی میری صفائی کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں ہے، میرے اڑوس پڑوس میں رہنے والے میری بدبو سے اب تنگ نہیں ہوتے، جیسے وہ راضی بہ رضا ہوں، اب انہیں میری بد بو نہیں ستاتی، اب ایک طرح سے میں تنگ آگیا ہوں،تحصیل بابوزئی میں ایک ارب روپے کے زرِکثیر سے بیو ٹیفکیشن کا کام جاری ہے، یہ بھی تم اچھا کررہے ہو، اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن میرا صاف پانی بھی تو مجھے لوٹا دو، مجھے بھی میرا ماضی واپس دلادو، اصل میں جب دور دور سے سیاح سوات کی سیر کے لیے آتے ہیں، تو وہ مجھے دیکھ کر تمہارے متعلق اچھا تاثر لے کر واپس نہیں جاتے، ارے، مَیں تو مرغزار اور جامبل کی برف پوش چوٹیوں کا تحفہ ہوں، میری جڑوں میں صحت افزا چشموں کا پانی تھا، لیکن میں مینگورہ شہر کے بے قدروں میں آکر پھنس سا گیا۔ ‘‘
آپ نے مینگورہ خوڑ کی کہانی خود خوڑ کی زبانی سن لی۔ اب آخر میں مجھے انتظامیہ سے ایک درخواست کرنی ہے کہ بیوٹیفکیشن کے حوالے سے کروڑوں روپے لیپا پوتی کی نذر ہو رہے ہیں، ان میں سے اگر چند کروڑ مینگورہ خوڑ کی صفائی اور مینگورہ شہر کے ڈرینج سسٹم پر خرچ کیے جائیں، تو میرے خیال میں اس کا فائدہ زیادہ ہوگا۔ باقی جو سرکار کی مرضی۔
بقولِ شاعر
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔