میں کتنے عرصہ بعد اس گاؤں میں آیا ہوں، مجھے نہیں یاد۔ ہاں! جب مَیں جا رہا تھا، تو یہاں کی کچھ نشانیاں یاد ہیں۔ وہاں ہمارا مٹی کا گھر تھا۔ صدر خان کاکا کی دکان تھی۔ وہ کھڈے میں بیٹھ کر چادر تیار کرتا تھا۔ (کھڈا زمین میں کھودا گیا وہ مخصوص قطعۂ زمین ہے، جہاں بیٹھ کر ہنر مند روایتی مشینوں سے چادر تیار کرتے ہیں، مترجم) مجھے اس کے پاؤں اور ہاتھ کی حرکات یاد ہیں۔ دھاگوں کے تانے بانے بالآخر چادر کی شکل اختیار کرلیتے۔ اس کے ساتھ احمد گل کاکا بھی بیٹھتا تھا۔ دبلا پتلا سا کاکا۔ ہر وقت چلم تازہ کیا کرتا تھا۔ وہ جب دَم مارتا، تو پانی کی مخصوص آواز سے پہلے احمد گل کاکا کی کھانسی کی زوردار آواز سنائی دیتی۔ جب کھانسنے کا دورانیہ طول پکڑتا، تو اس وقت کاکا پر ایسا گمان ہوتا کہ ابھی پھیپھڑے اور جگر باہر نکال پھینک دے گا، لیکن جب اس کی سانس بحال ہوتی، تو پھر سے پانی کی مخصوص آواز گُڑ گُڑ سماعت سے ٹکراتی اور اس کی سانسیں پھر سے زوردار کھانسی کی وجہ سے بے ترتیب ہوجاتیں۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوجاتا۔ چہرے کی ہڈیوں میں نیلی رگیں نمودار ہوجاتیں۔ یوں لگتا جیسے ابھی کھڈے میں ان رگوں سے شڑئی (اونی چادر) بن جاتی۔ صدر کاکا سب سے بے نیاز ہوکر کھڈے میں بیٹھ کر چادر تیار کیا کرتا اور کبھی کبھی ہونٹوں کو گولائی دے کر سیٹی میں یہ نغمہ گایا کرتا: ’’اوبہ دی اوڑینہ نو پاسہ لالیہ مازیگر دے، اوبہ دی اوڑینہ ‘‘
اور بہت جلد وہ نغمہ کھڈے کی آواز میں آدھا اور احمد گل کاکا کے چلم کے پانی کی مخصوص آواز اور کھانسی میں پورا غائب ہوجاتا:’’اوبہ دی اوڑینہ نو پاسہ لالیہ مازیگر دے اوبہ دی اوڑینہ ‘‘
مجھے وہ دکان یاد تھی۔ لیکن تیئس سال کے عرصہ میں سب کچھ غائب تھا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ کاش! میں وہ نغمہ ایک بار پھر سے سنوں۔ وہاں سے آگے گاؤں تھا۔ مٹی کی بے شمار چھتیں تھیں۔ میں اور میری ہمسایہ لڑکی، کیانام تھا اس کا؟ ہاں یاد آیا۔ میں اور بانوگئی سٹاپو کھیلتے تھے۔ (سٹاپو کو پختو میں چیندرو جبکہ یوسف زیٔ پختون چیندخ کہتے ہیں، مترجم) وہ کہتی یکہ، دوکہ اور دریکہ (یہ مذکورہ کھیل میں مختلف خانوں کے نام ہیں، مترجم) ہوگیا۔ جب میں تیسرے خانے میں پہنچ کر ناکام ہوجاتا، تو وہ کہتی، نہیں نہیں سردار! ایک اور باری لے لو۔ اور جب تک میں جیت نہ جاتا، وہ بار بار کہتی، باری لو۔ اور آخرِکار جب میں جیت جاتا، تو ہی اس کی جان میں جان آجاتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بانوگئی میری جیت اور اپنی ہار پہ خوش کیوں ہوتی تھی؟ شاید وہ اس بات سے ڈرتی تھی کہ اگر میں ہار جاؤں، تو پھر کھیلنے نہیں آؤں گا۔
میں گھر آجاتا تو ماں مجھ پہ غصہ ہوتی۔ کہتی:’’اللہ بیڑا غرق کرے، لڑکیوں کے ساتھ مت کھیلا کرو، ورنہ تمہاری دُم نکل آئے گی۔‘‘ (پختون معاشرہ میں جب لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، تو بڑے بوڑھے ڈرانے کی غرض سے لڑکے کو کہتے ہیں کہ تمہاری دُم نکل آئے گی جبکہ لڑکی کو ڈرانے کے لئے اس کے سینگ نکل آنے کی بات کرتے ہیں، مترجم) میں فوراً چپکے سے اپنا ہاتھ پیچھے پھیر لیتا کہ کہیں واقعی میری دُم نہ نکل آئی ہو۔ اس کا مفہوم کافی عرصہ بات میری سمجھ میں آیا کہ’’ دُم نکل آنا‘‘ تو ایک طرح کی تہمت ہے۔ لیکن اگر اس وقت بھی مجھے اس کی سمجھ آجاتی، تو اس کے باوجود میں بانوگئی کے ساتھ سٹاپو کھیلنا ہرگز نہ چھوڑتا۔ بانوگئی میرے لئے اکثر اپنے پلو میں آخروٹ بھی باندھ کر لاتی تھی۔
میری سانسیں بے ترتیب ہوگئیں۔ وہاں گاؤں نہیں تھا۔ پکے مکانات کا ایک سلسلہ تھا۔ دل میں خیال آیا کہ اب سٹاپو کھیلنے کی جگہ کہاں ہوگی؟ لیکن کچھ پتا نہ چلا۔ اپنے گھر کے خدوخال تو یاد تھے۔ پرانا سا دروازہ تھا۔ بند ہوتے ہی ایک مخصوص سی زوردار آواز پیدا کرتا۔ اندر ایک گھڑونچی پڑی رہتی جس پر مٹی کے ڈھیر سارے مٹکے رکھے ہوتے تھے۔ ان مٹکوں کے پانی کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، سانس ترتیب وار ہوگئی۔ میں آگے چل پڑا۔ ہمارا گھر نہیں تھا۔ لوہے کے گیٹ کے ساتھ کھڑے ماما نے کہا: ’’آئیں خان جی، یہی آپ کا حجرہ ہے۔‘‘
سنگ مرمر کا فرش تھا۔ دیواریں پکی تھیں۔ وہ کوئی حجرہ تو نہیں تھا۔ دو تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے ’’ہیلو‘‘ کہا اور ہاتھوں میں موبائل فون لئے کسی دوسری جگہ چل پڑے۔ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’ہی از پاپا کزن ھیونگ سم مینٹل ڈس آرڈر ‘‘ (He is Papa cousin having some mental disorder) میں دل ہی دل میں مسکرا دیا۔ سوچا جنریشن گیپ واقعی میں مینٹل ڈس آرڈر ہے۔ میں بنگلہ کے کاکا کے ساتھ بیٹھ گیا اور کہا: ’’کاکا، میرے ماں باپ کا گھرتو غائب ہے۔ ان کی قبریں بھی مجھے معلوم نہ ہوسکیں۔ تمہیں تو معلوم ہوں گی ناں؟‘‘ کاکا کی آنکھیں بھر آئیں۔ ’’خان، آج کل کوئی زندہ لوگوں کو نہیں پوچھتا، تو آپ گڑے مردوں کا جان کر کیا کریں گے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کاکا، ادے (ماں) کی بڑی یاد آتی ہے۔ ہاتھ دعا کے لئے اٹھالوں گا اور ان کی قبر کی مٹی چھوم لوں گا۔‘‘
’’ نہیں نہیں خان، مشر خان نے کہا ہے کہ آپ کی ذہنی حالت ایسی ہے کہ آپ کو کسی ایسی ویسی جگہ نہ لے کر جایا جائے۔‘‘
’’کاکا، تمہیں بانوگئی یاد ہے؟ صدر خان کاکا کی بڑی بیٹی بانوگئی۔ جس کے ساتھ میں سٹاپو کھیلتا تھا۔‘‘ کاکا نے چپ سادھ لی۔ سامنے بابا کی تصویر کو دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہیں پھر سے جھک گئیں۔ دو موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں کی قید سے آزاد ہوتے ہی گالوں پر دوڑنے لگے۔ ہونٹوں کو زور سے بند کیا جیسے ایک درد بھری چیخ کو باہر نہ آنے دینا چاہ رہا ہو۔ ہاں خان! بانوگئی تو یہی ہے، زندہ ہے۔ عصر کے وقت مشر خان سے آنکھ بچا کر چلے جائیں گے، آپ دیکھ لینا اُسے۔ اور میرے دل و دماغ میں صدر خان کاکا کی بیٹی بانوگئی کی یادیں پھر سے تازہ ہونے لگیں۔ سٹاپو، یکہ…… دوکہ…… دریکہ…… بانو کی آواز، نہیں نہیں دوسری باری لو، سردار! تم ہی جیتو گے اور مجھے یوں گمان ہوتا، جیسے کہ میں پورے جہاں کا سردار بن گیا ہوں۔ صدر کاکا کا کھڈا اور اس کی بیٹی بانوگئی دونوں زندگی کی زندہ علامات تھے۔ اور صدر کاکا جب چادر تیار کرتے ہوئے ہونٹ کو گولائی دیتے ہوئے کہتے ’’اوبہ دی اوڑینہ نو پاسہ لالیہ مازیگر دے اوبہ دی اوڑینہ‘‘ اے میرے خدایا! بانوگئی کہاں ہوگی، کس حال میں ہوگی؟ دوپہر کے بعد میں وعدے کے مطابق کاکا کے ساتھ روانہ ہوا۔ جاتے جاتے بنگلے ختم ہوگئے، ویرانہ آگیا۔ گھر تو نہیں تھا، لیکن قبرستان کے پاس ایک چھوٹے سے میدان میں ایک بوڑھی خاتون بیٹھی تھی جس کے بال الجھے ہوئے تھے۔ چہرے کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے ساتھ گویا تھی یکہ…… دوکہ…… دریکہ…… نہیں نہیں سردار، دوسری باری لو۔ تم جیتو گے۔ سردار، تم جیت گئے۔ چلو چلو دوسری باری لو۔ اور مجھے لگا جیسے قیامت ہے اور میں سب کچھ ہار چکا ہوں۔
(نوٹ:۔ ڈاکٹر ہمدرد یوسف زے کے پختو افسانوں کے مجموعہ سے ’’چندرو‘‘ کا ترجمہ، مترجم)
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔