پنجاب میں میراثی، گویا، بھنگی، مہتر، کشمیر میں ڈوم، گلہ بان، چوبان، بانڈ اور ہمارے ہاں کمہار (کولال) دھنیا (نانداف)، میراثی (ڈم)، چمار (شاخیل) وغیرہ کے نام آتے ہیں، تونیچ ذات کا دفعہ لگ جاتا ہے۔ ہندوستان میں چوہڑے، چمار، ڈوم وغیرہ کی اصلیت کی بابت جب ہر طرف سے مایوسی ہوتی ہے، تو آسانی سے اُسے ’’شودر‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ ذاتوں کی یہ تفاوت اکثر مجھے سوچ و بچار میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس معاشرتی فرق کو یکسر مٹا دیا جائے، لیکن جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ اس لیے باری باری ہر ایک کا تجزیہ کرنا اور اُس کی سماجی حیثیت پر لکھنے کا تہیہ ہی سودمند ثابت ہوگا۔ لہٰذا آج اُس پیشہ ور شخص کو ضبطِ تحریر میں لایا جارہا ہے جسے پشتون معاشرہ میں اُسترکار، استاد، سلیمانی نائی یا ڈم کہتے ہیں، جو ہر سماج میں زمانۂ قدیم سے معاشرتی خدمت کرتا آیا ہے۔
ہندی آریائی زبانوں میں نائی، انگریزی میں باربر اور ہیئر ڈریسر، عربی میں حجام اور حلاق، فارسی میں موتراش، کشمیری میں نادو اور پشتو زبان کے سلیمانی نائی جیسے الفاظ ایک ہی کسب کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ عربی لفظ ’’ خلیفہ‘‘ جو لغت کے اعتبار سے پیچھے آنے والا یا قائم مقام ہے، ولی عہد، جانشین اور میاں جی وغیر ہ کے اصطلاحی معنوں کے ساتھ ساتھ حجام، نائی اور ادنیٰ پیشہ ور آدمی کے لیے بھی مستعمل ہے۔ ایک اور عربی لفظ ’’دلاک‘‘ (بدن مَلنے والا) بھی حجام یا نائی کہلاتا ہے جبکہ اس بارے میں وکیل حکیم زے کہتا ہے کہ ’’لفظ نائی عربی لفظ نعیب کا مبدل ہے جس کے معنی ہیں خوش خبری کا پیغام رساں۔‘‘ مگر حجام کی لغوی معنی ’’پچھنے لگانا‘‘ کے ہیں، یعنی وہ عمل جس میں اُسترے یا نشتر سے جسم کو گود کر اوپر سینگی لگا دیتے ہیں (سوراخ کیا ہوا وہ سینگ جو رفع درد کے لیے بدن کے متاثرہ جگہ پر رکھ کر خون نکالا جاتا ہے)۔ اُسترہ ، نشتر اور سینگ جیسے آلاتِ جراحی یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ پُرانے زمانے میں یہودی اور مسلمان بچوں کا ختنہ (سنت) اِن سے کروایا جاتا تھا جب کہ حجامت بنانا اور بال تراشنا ابھی تک ان کا پیشہ ہے، جس کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ براعظم افریقہ کے جنگلوں میں جانگلو قبائل کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے، جنھیں ابھی تک بلیڈ اور ریزر مشین دیکھنا نصیب نہیں ہوا یا پھر کینیڈا کے دور اُفتادہ علاقے میں ان کی وقعت دیکھی جاسکتی ہے جہاں باہر کا نائی ایک مہینہ نہیں گزار سکتا اور مقامی شخص کو ایک حجامت کے لیے جہاز میں دو گھنٹے صرف کرکے ہزاروں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں یا مجبوراً عورتوں سے حجامت کروانا پڑتی ہے، یعنی ہر گھر میں خواتین مجبوری میں یہ کام سیکھ چکی ہیں۔ غرض یہ کہ جب تک مونچھ، حجامت اور سر کے بال بڑھتے رہیں گے، نائی کی ضرورت بھی کم نہیں ہوگی۔
اس طرح لفظ ’’خلیفہ‘‘ جو مزید ذیلی معنوں میں معاون، ماتحت، استاد کا نائب، مُنیم، دلال اور ڈرائیور وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور حجام و نائی کے لیے بھی، صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ قابل اعتبار شخص مؤثر پیغام رسانی کا ذریعہ بھی تھا جو ایک بااعتماد خادم ہونے کی واضح نشانی ہے۔ اس کے علاوہ پختون معاشرے میں معتبر بات پہنچانے والے کو ’’داروغہ‘‘ بھی کہتے تھے، جو کسی بادشاہ، نواب یا خان ملک کی اہم بات کسی دوسرے ہم منصب شخص کو پہنچاتا تھا اور کسی اور کو کانوں کان خبرنہ ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں قبائلی جنگوں میں وہ جھنڈا (توغ) یا نشانی (نخہ) لے جاتا تھا۔ اُس وقت وہ نشانچی کہلاتا تھا۔
پشتون قبیلوی سیٹ اَپ میں ’’نائی‘‘ کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً وہ ایک کسب گر ہوکر پورے ٹل کے افراد کی خدمت ایمانداری سے کرتا تھا، جس کا معاوضہ اُس کو غلہ اور بعض موقعوں پر نقدی کی شکل میں ملتا تھا۔ خاص کر شادی بیاہ یا غم کے دوران میں اس کا موجود ہونا اور فرائضِ منصبی بطریقِ احسن نبھانا ایک اہم معاشرتی فریضہ تھا۔ مزید برآں لشکر جمع کرنے، اُشر کا اعلان کرنے، جنگ کی تیاری کرنے اور عوام الناس کو کسی مسئلے کی اہم خبر پہنچانے کے لیے وہ نقارہ (ڈمامہ) بجاتا تھا۔ نیز وہ گھوڑے یا خچر کا مہار پکڑکر نائیک کی زنانی کو میکے سے صحیح سالم گھر پہنچاتا تھا اور خیرات، شادی اور ختنہ وغیرہ میں چاول پکاتا تھا۔ بعض موقعوں پر تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے تھے۔ مثلاً وہ خوشخبری (زیرے) بچوں کے سر کے بال لینے (سنڈے)، دھونی دینے (لوگے کول) اور معاوضہ مہار لینے (جلب) کا رقم ضرور لیتا تھا۔ ایسے موقعوں پر وہ کنجوسوں کی خوب خبر لیتا تھا لیکن بعد میں شکوہ بہت کم کرتا تھا۔ البتہ سخی لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتا تھا۔
کہتے ہیں کہ باتونی ہونا، نائی اور کوچوان کی گٹھی میں شامل ہے۔ کیوں کہ دونوں انتظار کروانے کے لیے لوگوں کو باتوں میں اُلجھاتے ہیں، لیکن یہ ان کی کاروباری مجبوری ہے جو رفتہ رفتہ ان کی فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے اور ہر پیشہ جب نسلوں تک جاری رہے، تو کاروباری نفسیات کے نتیجے میں بننے والی عادات واطوار انسان کو دائمی خول میں بند کرتی ہیں،جس میں انسان خود اپنی حیثیت کا غلام بن جاتا ہے۔ بقول برہ درشخیلہ کے احسان اللہ خان ولد شیرین زادہ بابو صاحب: ’’بعض شخص اپنی عادتوں کا وقتی غلام بن جاتا ہے اور بعض نسلی، جو نسلی غلام ہوتا ہے، اسے اس دلدل سے نجات دلانے کے لیے یا تو اُس کا معاشرتی منصب بدلنا پڑے گا یا اُسے گردشِ ایام کا مدتوں انتظار کرنا پڑے گا جبکہ نفسیات کا وقتی غلام موقع پاتے ہی اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔‘‘
جس طرح اس پیشے کے بعض افراد میں تعلیم، دولت یا دوسرے پیشے اختیار کرنے سے جلد نہیں بدیر ہی سہی مگر انقلابی تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر نہ صرف اپنی سماجی حیثیت بدل سکتا ہے بلکہ اعلیٰ و ارفع معاشرتی مرتبہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات نے جہاں اس پیشے کو فقط حجامت بنانے اور بال تراشنے تک محدود کیا ہے، وہاں اس پیشے سے وابستہ خاندانوں کے اکثر افراد نے تعلیم، صحت اور قانون حتیٰ کہ سیاست اور سماجی کاموں میں بھی نام کیا ہے، جن میں سے بعض کی ایماندااری اور خلوصِ نیت معاشرے کے لیے عدیم المثال ہے۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی بھی انسان نیچ ذات نہیں ہوسکتا۔ محض معاشرتی مجبوری، کم ہمتی اور حالات سے سمجھوتا انسان کی وقعت میں کمی لانے کا باعث بنتے ہیں۔ تاریخ ایسے بے شما رواقعات سے بھر ی پڑی ہے جس میں کمزور طبقوں کے اکثر افراد نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ جہاں بڑے بڑے سرماؤں نے پیٹھ دکھایا ہے۔ اس ضمن میں 1948ء کی پاک بھارت جنگ کا واقعہ قجیر خان وکیل کے والد گل احمد (مرحوم)کی زبانی نقل کرتے ہیں: ’’ جنگ میں شمولیت کے لیے ریاست کی فوج گراسی گراؤنڈ میں ترتیب دی جا رہی تھی۔ ہم میں سے گاؤں جورہ کا ایک نائی بضد تھا کہ اُسے پیتے بندوق کی جگہ جدید اسلحہ دیا جائے۔ لیکن قانون کی رو سے نائی کو متبادل بندوق دینے اور محاذ پر بھیجنے کی اجازت نہیں تھی۔ حالاں کہ بعض صاحبِ ثروت حضرات اپنی جگہ کرایہ کے افراد بھیجتے تھے۔ آخرِکار مذکورہ شخص چُپکے سے بس میں سوار ہوا اور ہم کشمیری محاذ پر لڑتے لڑتے پونچھ تک پہنچ گئے۔ جہا ں ہم بری طرح دشمن کے محاصرے میں آچکے تھے۔ میں قریب سے مشاہدہ کررہا تھا کہ وہ جانباز نہ صرف بہادری سے لڑرہا تھا بلکہ لڑتے لڑتے والئی سوات کو کوس رہا تھا اور اپنے بعض فوجیوں کو مخاطب کرکے کہتا تھا کہ کہاں بھاگ رہے ہو؟ مجھے تو آپ لوگ نائی کہتے تھے ناں! اس کے ساتھ اپنے فوجی عملے کی بھی خوب خبر لیتا تھا کہ بے غیرتوں نے اُسے اصلی بندوق نہیں دی تھی، ورنہ آج وہ ہندو بنیوں کو مزا چکھاتا۔ ان کا حوصلہ اس وقت بھی قائم ودائم تھا جب گاؤں غوریجہ کے فقیر نائب سالار اور جرے کے کامران صوبیدار سمیت ہم پانچ آدمی رہ گئے تھے۔ یہ تو پاکستانی فوج کی مدد سے ہم محاصرہ توڑکر باہر نکلے، ورنہ وہ تو شہادت کا مرتبہ حاصل کیے بغیر جانے والا نہیں تھا۔‘‘
اس طرح 1895ء کو انگریزوں کے خلاف جندول عمرا خان کی فوج کا ایک سپاہی ڈھولک بجا کر ساتھی سپاہیوں کا حوصلہ اس وقت تک بڑھا رہا تھا جب وہ زخمی حالت میں قلابازیاں کھاتا ہوا ملاکنڈ کے پہاڑ سے گرا نہیں تھا۔ یعنی تادمِ شہادت اس کا ہاتھ ڈھولک سے چمٹا رہا۔ اس طرح 1897ء کو سرتور فقیر کی لڑائی میں ایک سپاہی سترہ گولیاں لگنے اور بدن چھلنی ہونے کے باوجود جھنڈا (توغ) گرنے نہیں دے رہا تھا۔ حتیٰ کہ جامِ شہادت نوش کر گیا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ لوگ نسلی نہیں وصلی پختون تھے، مگر پختونولی کی ایسی مثال قائم کی کہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔
حاصلِ نشست یہی ہے کہ اسلامی معاشرت کسی انسان کی برتری یا کمتری اس کے حسب نسب یا پیشہ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اعمال سے متعلق ہے۔ انسا ن اپنی انسانیت کے لحاظ سے نہ نیچ ہے نہ اونچ۔ خدا نے سب کو برابر پیدا کیا ہے۔ لہٰذا پیدائش اور خلقت کے اعتبار سے یا نسب و نسل کے لحاظ سے ان کے درمیان درجات قائم کرنا خدا کی فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ اِنَّمَا اَکرَمَکُم عِندَاللّٰہِ اَتقَاکُم۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔