حج میں تاخیر کیوں؟

حج کے لغوی معنی ہیں قصد و ارادہ کرنا۔ اصطلاح میں حج سے مراد خصوصی ایام میں مخصوص جگہوں کی زیارت کرنا ہے۔ حج اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر فرمائی، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ ’’اے ابراہیم! لوگوں میں یہ اعلان فرمادیں کہ وہ اس بیت اللہ کے حج کے لیے آئیں، پیدل آئیں اور سوار ہوکر آئیں، دور دراز سے اور دنیا کے چپے چپے سے یہاں پہنچیں۔‘‘ (القرآن)
چناں چہ ابراہیم علیہ السلام نے ایک پہاڑ پر چڑھ کر یہ اعلان فرمایا تھا کہ اے لوگو! یہ اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے یہاں آؤ۔
یہ اعلان آپ علیہ السلام نے پانچ ہزار سال پہلے کیا تھا۔ آج جب کوئی عمرہ کرنے والا یا حج کرنے والا حج یا عمرہ کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلان کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’’اے اللہ، میں حاضر ہوں اور بار بار حاضر ہوں۔‘‘
قرآنِ کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں پر واجب ہے کہ جو شخص بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ وہ حج کرے۔ یہ حج ارکان اسلام میں سے چوتھا رکن ہے اور صاحب استطاعت پر اللہ تعالیٰ نے عمر بھر ایک مرتبہ فرض قرار دیا ہے۔ جب حج فرض ہوجائے، تو حکم یہ ہے کہ اس فریضے کو جلد از جلد ادا کیا جائے۔ کیوں کہ انسان کی موت اور زندگی کا کچھ بھروسا نہیں۔ اگر حج فرض ہونے کے بعد اور ادائیگی سے پہلے انسان دنیا سے چلا جائے، تو یہ بہت بڑا فریضہ اس کے ذمے باقی رہ جاتا ہے۔
محترم قارئین! آج کل ہم لوگوں نے حج کرنے کے لیے اپنے اوپر بہت سی شرطیں عائد کرلی ہیں، جن کی شریعت میں کوئی اصلیت نہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ان کے دنیاوی مقاصد پورے نہ ہوجائیں، مثلاً جب تک مکان نہ بن جائے یا جب تک بیٹیوں کی شادیاں نہ ہوجائیں، اس وقت تک حج نہیں کرنا چاہئے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ جب انسان کے پاس اتنا مال جمع ہوجائے کہ اس کے ذریعہ حج ادا کرسکے، آنے جانے کا خرچ ہو اور گھر میں بال بچ کے لیے خرچہ بھی ہو، یا اس کی ملکیت میں سونا اور زیور ہے اور وہ اتنا ہے کہ اگر اس کو وہ فروخت کر دے، تو اس کی رقم اتنی وصول ہوجائے گی جس کی ذریعے حج ادا ہوجائے گا، تب بھی حج فرض ہوجائے گا۔ لہٰذا حج فرض ہوجانے کے بعد اس کو کسی چیز کے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔

ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں پر واجب ہے کہ جو شخص بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ وہ حج کرے۔ (Photo: Boston.com)

اللہ تعالیٰ نے اس حج کی خاصیت یہ رکھی ہے کہ حج ادا کرنے کے نتیجے میں آج تک کوئی شخص مفلس نہیں ہوا۔ البتہ ایسے بے شمار لوگ آپ کو ملیں گے کہ حج کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں برکت عطا فرمائی۔
حج کی فرضیت کے لیے مدینہ کا سفر خرچ ہونا بھی ضروری نہیں، یعنی مدینہ منورہ کا سفر حج کے ارکان میں سے نہیں ہے اور فرض واجب بھی نہیں۔ اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ جاکر حج کرلے اور مدینہ منورہ نہ جائے، تو اس کے حج میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ مدینہ منورہ کی حاضری عظیم سعادت ہے۔ لہٰذا فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ جاکر حج تو ادا کرسکتا ہے، لیکن مدینہ منورہ جانے کے پیسے نہیں ہیں، تب بھی اس کے ذمے حج فرض ہے۔اس کو چاہئے کہ حج کرکے مکہ مکرمہ ہی سے واپس آجائے۔
قارئینِ کرام! بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم والدین کو حج نہیں کرائیں گے، اس وقت تک ہمارا حج کرنا درست نہیں ہوگا۔ یہ محض جہالت کی بات ہے۔ ہر انسان پر اس کا فریضہ الگ ہے۔ ہر انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک اپنے اعمال کا مکلف ہے۔ اس کو اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر ماں باپ پر حج فرض نہیں ہے، تو کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ حج پر نہیں گئے، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر آپ پر حج فرض ہے، تو آپ کے لیے حج پر جانا ضروری ہے۔ اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ پہلے والدین کو حج کرائیں اور پھر خود کریں، یہ سب خیالات غلط ہے۔
قارئین کرام! ہم میں سے ڈھیر سارے مسلمان ایسے ہیں جو ذاتی ضروریات اور ذاتی کاموں کی خاطر لمبے لمبے سفر کرتے ہیں۔ یورپ کا سفر کرتے ہیں، امریکہ، فرانس اور جاپان کا سفر کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر پر حاضری دے دیں۔ چناں چہ آپؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس شخص پر حج فرض ہوگیا اور پھر بھی وہ حج کیے بغیر مر گیا، تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یانصاریٰ ہوکر۔
لہٰذا یہ معاملہ اتنا معمولی نہیں ہے کہ انسان اس حج کے فریضے کو ٹالتا رہے اور یہ سوچتا رہے کہ جب فرصت اور موقع ملے گا، تو حج کرلیں گے۔

……………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔