حوا کی بیٹی کیا آدم کی بیٹی نہیں؟

کہتے ہیں کہ حوا کی بیٹی کو آدم کے بیٹوں سے خطرہ ہے۔ آج میرا اُن سب لوگوں سے سوال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بیٹیاں حوا کی ہیں اور بیٹے آدم کے۔ کیا آدم حوا کی بیٹی کا باپ نہیں ہے؟ اگر ہے، تو بیٹیاں آدم کی اور بیٹے حوا کے بھی ہیں۔ پھر اسی آدم و حوا کی بیٹیوں کو آدم و حوا کے ہی بیٹوں سے خطرہ کیوں ہے؟کیا آدم و حوا نے اسی لیے اولاد پیدا کی تھی کہ کل کو انہیں ایک دوسرے سے خطرہ ہو؟ کیا خدا نے انہیں اس دن کے لیے اولاد عطا کی تھی؟ کیا اس دن کے لیے آدم کے بیٹوں نے جنم لیا تھا کہ آگے چل کر حوا کی بیٹیوں کو نوچ کر کھائیں گے ؟ عورت کی کو کھ نے عورت کو اس دن کے لیے تو پیدا نہیں کیا تھاکہ کل کو مرد اسے نوچ کھائے۔اسے اپنی ہوس کی تسکین کا ذریعہ بنائے۔ خدا نے عورت کو مرد کے راحت و سکون کے لئے ضرور پیدا کیا ہے، لیکن اس کے ہوس کی تشنگی بجھانے کے لیے بالکل نہیں۔
آج کل بیٹیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔ والدین کو بیٹیاں نہیں، ان کے نصیب ڈراتے ہیں۔ تو کیا نصیبوں کا تعلق صرف بیٹیوں سے ہے؟ کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ بیٹے بھی بد نصیب ہوسکتے ہیں۔ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں باپ کے کاندھے بھاری ہوجاتے ہیں؟ بیٹیوں کی غلطی گناہ اور بیٹوں کا گناہ معمولی سی غلطی سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔‘‘ تو کوئی مجھے یہ بتادے کہ معاشرہ بنانے والے اور معاشرہ کہلانے والے دراصل ہیں کون؟ جو اسے صرف مردوں کا معاشرہ قرار دیتے ہیں ۔
اگر بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں اور ان کی پیدائش پر باپ کے کاندھے بھاری ہو جاتے ہیں، تو ہمارے پیارے نبیؐ کے گھر میں چار بیٹیاں پیدا ہوئیں، تو ان کے کاندھے کیوں بھاری نہیں ہوئے؟ انہوں نے خدا سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ ان کے بعد کسی کے گھر بیٹی پیدا نہ ہو؟آپؐ کو بیٹیوں کے نصیب نے کیوں نہیں ڈرایا؟ جواب یہ ہے کہ آپؐ خود عورت کو عزت دینے والی شخصیت تھے۔ وہ عوت کا مقام ا ور مرتبہ خوب جانتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں چار بیٹیاں بھی بوجھ ثابت نہیں ہوئیں۔ آپؐ وصال کے وقت اپنی بیٹیوں کے لیے نہیں بلکہ امت کے لیے دعا گو تھے۔ آپؐ کواپنی بیٹیوں کے نصیب کا نہیں بلکہ امت کے بھٹک جانے کا ڈر تھا۔

کیا واقعی بیٹی، والد کے کاندھوں پر بوجھ ہے؟ (Photo: madhurupa.deviantart.com)

آج بھی اگر ہم بیٹیوں کو بوجھ سمجھنا چھوڑ دیں اور بیٹی کو صرف حوا کی نہیں آدم کی اولاد بھی سمجھنے لگیں، تو ہمیں کبھی بیٹی کا نصیب نہیں ڈرائے گا۔ ہر مرد صرف اتنا سمجھ لے کہ اس کے پاس آنے والی کوئی بھی عورت ایک عورت نہیں بلکہ کسی کی بہن یا بیٹی ہے، تو کبھی کوئی بیٹی کے نصیب سے نہیں ڈرے گا ۔ جس دن آدم نے حوا کو مان لیا، تو دنیا میں بدکاری ختم ہوجائے گی۔ اپنے نصیبوں سے ڈر نہیں لگے گا۔ یاد رکھیں، کسی کی بیٹی کا نصیب خراب کریں گے، تو اپنی بیٹی کے نصیب سے ڈر بھی لگے گا اور شانے بھی جھکیں گے۔
قارئین، مرد اگر ہوس کا پجاری نہ بنے، تو عورت اپنا مقام اور مرتبہ کبھی نہیں چھوڑتی۔ آج مرد کی جیب میں چار پیسے آجائیں، تو اسے راہ چلتی ہر عورت طوائف کیوں نظر آتی ہے؟ اسے کیوں ایسا لگتا ہے کہ ان نوٹوں کی چمک سے وہ ہر شے خرید سکتا ہے؟ یہاں تک کہ ایمان بھی۔ وہ کیوں بھول جاتا ہے کہ خدا نے اسے دنیا میں اس کی سزا دے دینی ہے؟ کیوں بھول جاتا ہے کہ زنا ایک ایسا گناہ ہے، جو اس نے کیا تو کفارہ اس کی اولاد کو دینا پڑے گا؟ آدم کے بیٹے خونی رشتوں میں بھی حوا کی بیٹی کو ڈس رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی خونی رشتوں کے ہاتھوں نوچی جا رہی ہے۔ کہیں محبت کے بازار میں اس کی عصمت خرید لی جاتی ہے، تو کہیں مجبوریوں کی بیڑیوں میں اسے جھکڑ کر اس کا ناجائز فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر بدکار صرف حوا کی بیٹی ہی سمجھی جاتی ہے، کبھی کوئی آدم کا بیٹا بدکار نہیں کہلایا۔ کوٹھوں میں ناچنے والی بدکار اور کھوٹوں پر جانے والے شرفا کیوں ہیں؟ گھر سے باہر نکل کر کوٹھوں پہ جانے والوں پر انگلیاں نہیں اٹھائی جاتیں۔
قارئین، آج بیشتر آدم کے بیٹے اندر سے درندہ ہیں، جو حوا کی بیٹی کو نوچنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کو موقع میسر نہیں آتا، تو کوئی موقع کی مناسبت سے اپنی کسر پوری کرلیتا ہے۔ گناہ کے لیے موقع کا نہ ملنا مرد کی نیکی نہیں خدا کا کرم ہے کہ وہ اسے بچائے ہوئے ہے۔
قارئین، خدارا! بیٹیوں کے نصیب کو رونے کی بجائے بیٹیوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ کیوں کہ انہی بیٹیوں سے آگے قوم کا نصیب جڑا ہے۔ آپ کسی کی بیٹی کا نصیب سنواریں گے، تو کل کو خدا آپ کی بیٹیوں کا نصیب سنوارے گا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلا قتل عورت کی وجہ سے ہوا تھا۔ آدم کے بیٹے قابیل نے آدم کے دوسرے بیٹے ہابیل کو حوا کی بیٹی کے لیے ہی مارا تھا۔ وہ پہلی لڑائی، وہ پہلا قتل بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ کھوٹ آدم کے بیٹے میں تھی، حوا کی بیٹی میں نہیں۔ آج عورت ایک ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں حوا کی عصمت کی خیر خواہ اور محافظ ہے۔ کہیں ماں کے روپ میں بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے، تو کہیں بہن کے روپ میں آنچل میں چھپا لیتی ہے اورکہیں بیٹی کے روپ میں والدین کے لیے گویا ڈھال بن جاتی ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ حوا کی بیٹیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔