وہ چائے کا کپ سامنے رکھے شائد یہ سوچ رہا تھا کہ بجلی اور گیس کا بِل ادا کرے، کرایے دار کو دومہینے کا کرایہ ادا کرے یا پھر اپنے بچوں کو کھلائے اور پڑھائے؟ دریافت کرنے پر رندھیہوئی آواز میں کہنے لگا کہ ’’یار……اگر تمہاری تنخواہ اتنی ہو، تمہارے بیوی بچے ہوں اور مہنگائی کا یہ عالم ہو، تو کیا تُم گزارا کرلوگے؟‘‘ میں اس وجہ سے سوچ میں پڑگیا۔ کیوں کہ کہ نہ تو میں شادی شدہ ہوں اور نہ ہی مجھے بیوی بچوں کو کھلانے یا پڑھانے کی فکر ہے۔ ہاں، ایک پنشنر ماں ہے اور ایک اسپیشل بھائی۔ گھر کا کرایہ آجاتا ہے اور باقی کا تھوڑا بہت حصہ میں ڈال دیتا ہوں، نہ بھی ڈال پاؤں، تو اتنا خاص فرق نہیں پڑتا ۔ میں تو اس کا وہ درد کہ جس میں وہ مکمل بھیگا ہوا تھا، صرف محسوس ہی کرسکتا تھا۔ جس سے میں اس کے حالات اور کیفیت کو اعشاریہ ایک فیصد بھی تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اس قدر تکلیف میں بھی بول اس لیے نہیں سکتا تھا کہ 30 سال تجربہ ہونے کے باوجود بھی وہ پچھلے چھے ماہ سے بے روزگار تھا۔ مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتا رہا، مگر اب وہ ایک لاکھ سے زیادہ کا مقروض بھی ہے۔ اب وہ انڈسٹری میں ایک نیا قدم رکھنے والے سرمایہ دار کے ہتھے چڑھ چکا ہے ، اور سب اس کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ شکر ہے تمہاری نوکری پکی ہوگئی ہے۔ مگر وہ خوب سمجھتا ہے۔ کیوں کہ اس نے زندگی کا ایک بڑا حصہ انہی سیٹھوں کے رنگ رنگ کے ظلم سہتے گزارا ہے ۔
ایک طبقہ اس کو خدا کی تقسیم قرار دیتا ہے۔ کیا واقعی خدا اتنا ناانصاف ہوسکتا ہے یا پھر پاکستان کے آئین کو خدا نے تشکیل دیا ہے؟ نہیں، ہم انسانوں نے ہی دوسرے انسانوں کے لیے قانون بنائے ہیں۔ آئین، اس کے بنانے والوں، اس میں ترمیمیں کرنے والوں اور اس سے فائدے حاصل کرنے والوں پر بھی آفرین ہے۔ کتنی خوبصورتی سے ہم عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتے ہیں۔ میرے لیے انٹرمیڈیٹ کی ریاضی اور فزکس کی لاجکس سمجھنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا، مگر اس قوم کی لاجکس سن کر انہیں سمجھنا اور بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔سرمایہ دارکی زیادتیوں کا اِزالہ بھی سرمایہ دار سے ہی چاہتے ہیں۔ نواز شریف تو چلو ٹھہرا دُنیا کا سب سے بڑا چور، زرداری اس کا بھی باپ، لیکن ہماری اُمیدیں جن لوگوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں، کیا وہ خود سرمایہ دار طبقہ نہیں ہے؟ فیکٹریاں، زمینیں اورپیداوار کے تمام چھوٹے بڑے ذرائع مجھ جیسے غریب کے پاس نہیں بلکہ اس ملک کی دوفیصد اشرافیہ کے پاس ہیں۔ وہ دو فیصد اشرافیہ اپنی فیکٹریوں، بھٹیوں، زمینوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اگر ماہوار 15 ہزار اور اس سے بھی کم دیتی ہے، تو اس میں اشرافیہ کا کیا قصور ہے؟ قصور تو اس قانون کا ہے جو کہ ملک کے مزدور کو کم از کم 15 ہزار ماہوار دینے کا پابند کرتا ہے۔ کون مزدور……!کسی بھی لیول کا مزدور،میلے کپڑوں والا یا وائٹ کالر مزدور۔ ملک کے قانون کے مطابق کوئی بھی شخص اس کو کسی بھی کورٹ میں چیلنج نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ جرم عین قانونی ہے۔
اب یہ سوال اٹھے گا کہ ایسے قوانین بناتا کون ہے؟ جی ہاں، ایسے قانون جہانگیر ترین، علیم خان، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی،عمران خان، نواز شریف اور اس طرح کے بیشتر سرمایہ دار ہی بناتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دم قدم سے ملک کی بڑی بڑی اور اہم انڈسٹریاں چل رہی ہیں اور ان کے سرمایے میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
کوئی شخص جہانگیر ترین اور اس کے بیٹے کو پندرہ ہزار روپے دے اور کہے کہ اس سے پورا مہینہ چلانا ہے۔ عمران خان کو دس ہزار روپے دے کر کہیں کہ بجٹ نہیں ہے، اسی میں گزارا کرو۔ نواز شریف جو آج کل سڑکوں پر روتا پھر رہا ہے کہ اس کو کیوں نکالا؟؟؟ سوال یہ ہے کہ آپ کو کیوں نہ نکالا جاتا؟ اتنے سال سے ملک پر قابض ہو، کون سا ایسا معاشی انقلاب لائے آپ؟ بادشاہ بن کر محل میں بیٹھے رہے اور اب جب اپنی ڈالی گئی ہے، تو غریب کا پسینے سے بھرا ماتھا بھی چومنے کو تیار ہیں؟ موصوف کہتے ہیں کہ ایک بار پھر وزیراعظم بنا دو، ملک کے سب غریبوں کو گھردوں گا۔
دوسری طرف عمران خان کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بدل دیں گے۔ اگر یہ لوگ اتنے ہی اچھے اور مخلص ہیں، تو دوفیصد اشرافیہ پھر ہم لوگ ہی ہوں گے!
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کھیل ان نظریات کا بالکل نہیں ہے جن کے پیچھے یہ چھپتے ہیں۔ ہمیں ویسے ہی الجھایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ روٹی کا ہے، جس کا تعلق معیشت سے ہے اور معیشت کا تعلق طرزِ نظام سے ہے۔ معاشی نظاموں پر بحث کو سیاسی منظرنامے کا حصہ بنادیں۔ پھر دیکھیں کہ کون کہاں کھڑا ہے؟ ان میں سے کوئی ایک بھی سیاستدان، سرمایہ دار کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اگلا الیکشن معیشت کی اصل بحث پر لڑا جائے۔ یہ بحث ان کے مفاد میں کسی بھی صورت نہیں ہے۔ جن نظریات کا جھانسا دے کر یہ عوام کو اتنے سال سے پاگل بنا رہے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ کس نظام کے تحت تبدیلی لائیں گے آپ؟ وہ نظام جس کے تحت امریکہ تک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے! پاکستان تو اس دوڑ میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے جس میں ترقی یافتہ قومیں سر پھٹ دوڑ رہی ہیں۔ کیا یونہی آئے گی تبدیلی؟ کیا مسلسل ناکامی، کرپشن اور باقی کی درجہ وار بے ایمانیوں کے ہی پیٹے ہیں؟ اگر سسٹم میں تھوڑی سی بھی Capacity ہوتی، تو کہیں تو کچھ ہوتا نظر آتا؟ غریب کی تنخواہ کم از کم 50 ہزار کس دور میں ہوگی؟ ان میں سے کوئی بھی شخص اس بات پر کبھی بھی سیاست نہیں کرے گا۔ کیوں کہ یہ سسٹم ان کو دولت اکٹھی کرنے کی اجازت تو دیتا ہے، معاشی انصاف کرنے کی نہیں دیتا۔ ان کو ان کے مقاصدبتاتے ہیں کہ قانون میں فلاں فلاں تبدیلی مارکیٹ کے عین مطابق اور وقت کی ضرورت ہے۔ نیز غریب کو کب نوالہ دیا جائے اور کب چھین لیا جائے؟ یاد رہے کہ معیشت کا اصل مُدا سیاسی بحث میں آنا اتنا ہی اہم ہے، جتنا کہ اس ملک کی بقا کے لیے دوسرے عوامل۔ ملک میں اگر غریب کے حالات کبھی بدلنے ہی نہیں ہیں، توپانی ابھی بھی سر پر ہی کھڑا ہے۔ 98 فیصد میں سے کچھ ہزار ہی اس سوچ کو ترویج تو دیں۔ معیشت کی اصل بحث میں کودیے ، پھر دیکھیں تماشہ۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔