مسئلہ نہ صرف ایک ٹویٹ سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی اختلاف کی وجہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ناکافی کارروائی ہے۔ نہ تو پاکستان کی سرزمین سے کسی قسم کا کوئی طوفان انکل سام کو چھیڑ رہا ہے، نہ ہی کسی بھی طرح سے کچھ ایسے ہنگامی حالات ہوئے ہیں کہ جن سے یہ امکان پیدا ہو جاتا کہ ذہنی طور پر ہیجان خیزی کی طرف مائل ٹرمپ کوئی ایسی ٹویٹ داغتا جس سے پاکستان کی خود مختاری، سالمیت، اور وقار کے منافی کچھ محسوس ہوتا، بلکہ درونِ پردہ کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے جیسا پنجابی کی ایک ضرب المثل مشہور العام ہے کہ ’’آکھاں تی نوں، سناواں نہو نوں‘‘ـ(یعنی کہ کہوں بیٹی کو لیکن سناؤں بہو کو)۔ کچھ ایسا ہی حال اس لمحے سفید بالوں، چنی آنکھوں والے ٹرمپ جی کا ہے(چنی آنکھوں والے کی اصطلاح کی تشریح جاننا مقصود ہو، تو کسی بڑی عمر کے بزرگ سے پوچھ لیجیے گا)۔ وہ بظاہر تو ٹویٹ میں چھری کانٹے تیز کیے گھور پاکستان کو رہے ہیں کہ ’’ہنٹر تینوں نہیں چھڈنا ملنگی‘‘ مگر حقیقت میں مخاطب تیزی سے دنیا کی معیشت کو اپنے قابو میں کرتا چین ہے۔ جسے شاید پیغام دینا مقصود ہے کہ تم ہمارے کل کے غلاموں کو اپنا دوست بنا کے اپنے ساتھ بٹھا رہے ہو، یہ اچھا نہیں کر رہے تم ۔
بھلا ہو ’’ژی جنگ پنگ‘‘ کا کہ جو اَب چین میں نصاب کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) یا بیلٹ اینڈ روڈ (B & R) یا دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹیو (BRI) کا ایسا تصور پیش کیا کہ جس سے دنیا میں طاقت کا توازن آج نہیں، تو مستقبلِ قریب میں تبدیل ہوتا ہوا ضرور نظر آ رہا ہے۔ روس پہلے ہی شام میں یہ ثابت کر چکا ہے کہ اب حالات پہلے سے نہیں رہے اور وہ دوبارہ سے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو چکا ہے۔
مجموعی طور پر تو یہ منصوبہ چھے راہداریاں اور ایک میری ٹائم سلک روڈ پہ مشتمل ہے مگر جس قدر توجہ پاک چین اقتصادی راہداری کو حاصل ہو چکی ہے، وہ باقی راہداریوں کو عالمی دنیا نہیں دے پا رہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس راہداری کو گوادر سے منسلک کرنے کی وجہ سے امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک سخت الجھن و پریشانی کاشکار ہیں۔ گوادر کی تعمیر و ترقی میں چین کے کردار سے پہلے ہی عالمی طاقتیں تشویش کا شکار ہیں۔ رہی سہی کسر اس راہداری نے پوری کر دی ہے۔ پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات کے باجود راہداری منصوبہ حیران کن طور پر تکمیل کی جانب گامزن ہے اور یہی ایسی پریشانی ہے جو عالمی طاقتوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کے لیے بھی ان پہ انحصار کرتے تھے، اب کیسے ہم ان کی تشویش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس منصوبے کی کامیابی کا بیڑا اُٹھا بیٹھے ہیں۔ پاکستان، ترکی، ایران، روس، چین کا کردار جس تیزی سے عالمی منظر نامے میں تبدیل ہو رہا ہے، وہ یقینا امریکہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ایک عرصے تک واحد سپر پاور کہلائے جانا ایک ایسا نشہ تھا جو اَب ’’انکل سام‘‘ کو ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ رہی سہی کسر چین کے عالمی معیشت میں یوآن کرنسی کے کردار نے پوری کر دی ہے۔ جنوری 2018ء کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا مرکزی بینک یوآن کو باہمی تجارت میں بطور کرنسی استعمال کرنے لیے واضح بیان جاری کر چکا ہے۔ یہ عالمی سطح پر ڈالر کے لیے مقابلے کی فضا مزید سخت کرنے کی طرف یقینا ایک اہم قدم ہے۔ بینک آف چائنہ کو پاکستان میں آپریشنز کے لیے اجازت پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ 2015-16ء میں چین اور پاکستان میں باہمی تجارت 14 بلین ڈالر کے قریب تھی۔
امریکہ کو اس وقت پریشانی صرف سی پیک سے نہیں ہے۔ نہ ہی اس کو پاکستان کے چین کے ساتھ یوآن میں تجارت سے کوئی خاص فرق پڑ سکتا تھا، مگر پاکستان کیوں کہ ایک ایسے عالمی منظر نامے کا نقطۂ آغاز ثابت ہو رہا ہے، جو مستقبلِ قریب میں امریکہ کی اجارہ داری ختم کرنے کی تصویر پیش کر رہا ہے؟ کیوں کہ بات سی پیک تک محدود نہیں ہے اور نہ چین کے پاکستان میں 57 بلین ڈالر سرمایہ کاری تک بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹیو (BRI) کا دائرہ کار ایشیا، افریقہ و یورپ کے کم و بیش ساٹھ ممالک تک پھیلا ہوا ہے اور اگر چین اس منصوبے کو مکمل کر گیا،جو معروضی حالات میں قرینِ قیاس نہیں، تو صرف پاکستان نہیں ساٹھ سے زیادہ ممالک میں ڈالر کی بادشاہت کو خطرہ درپیش ہے اور ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں تبدیل ہوتی پالیسی اسی خطرے کے پیش نظر ہے۔ اس امید پہ کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان دب جائے اور امریکہ کو لاحق معاشی خطرات ٹل جائیں، مگر جس پیمانے کی سرمایہ کاری اب چین کر چکا ہے، اس میں پاکستان کے لیے واپس لوٹنا ممکن نہیں۔ جیسا پاک ایران گیس پائپ لائن پہ پریشر میں پاکستان رک گیا تھا۔ یہاں یہ پریشر اب حقیقت سے دور ہو چکا ہے۔ کیوں کہ چین اور پاکستان کے مفادات مشترکہ ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے سخت لب و لہجے کے باجود پاکستان کا اعتماد اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ دنیا میں حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اور اسلحے کی بجائے معیشت کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے میں چین کامیاب ہو رہا ہے۔ اور اب واحد سپر پاور ہونا بھی مستقبل بعید میں ممکن نہیں رہے گا۔ کیوں کہ جو ممالک معاشی طور پہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کی وجہ سے آپس میں منسلک ہو جائیں گے ان کے لیے دفاعی معاملات میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینا مجبوری بن جائے گا۔ کیوں کہ چین نہ تو اپنی سرمایہ کاری کو ان حصہ داروں کے اوپر چھوڑے گا نہ ہی وہ ممالک اپنی مضبوط ہوتی معیشت کو داؤ پہ لگانے کو تیار ہوں گے۔
فائدہ بے شک چین کا ہے اور ان ممالک کا بھی جو چین کے ساتھ ان منصوبوں میں شامل ہیں، مگر نقصان انکل سام کا ہے اور اس کی اجارہ داری کو ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کے ٹویٹ اور بیانات میں سے دھواں نکلتا واضح محسوس کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔