وزیرِاعلیٰ صاحب کا قابلِِ اصلاح مؤقف

پشاور سے شائع ہونے والے ایک بڑے اردو اخبار نے مورخہ بارہ جنوری 2018ء کو ایک تقریب میں صوبائی وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک کے اس فقرہ کو اپنی خبر کی شہ سرخی بنایا ہے کہ ’’محکمہ خزانہ، قانون اور ایکسائز مداخلت نہ کریں، اپنی حدود میں رہیں۔ ایک دوسرے کے معاملات اور اختیارات میں مداخلت سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔‘‘
الفاظ اس بیان کے نرم ہیں لیکن اچھی حکمرانی کے حوالے سے یہ مؤقف درست نہیں۔ اداروں کو اپنے مؤقف کے ماتحت کرنا ڈکٹیٹر والی سوچ ہے۔ ہمیں امید ہے یہ الفاظ وزیراعلیٰ صاحب نے اضطراری طور پر کہے ہوں گے، وہ ان پر کھڑے نہ ہوں گے۔ اکسائز کے محکمے کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں لکھ سکتے، کیوں کہ سوات میں اس محکمے کا کردار واضح نہیں ہے۔ البتہ فنانس اور قانون کے محکموں کی رائے صائب ہوتی ہے۔ وزیر، وزیراعلیٰ اور گورنر حتیٰ کہ چیف سیکرٹری اور سیکرٹریز کے لیے محکمہ فنانس اور محکمہ قانون کی مدد ہر حکومت میں ضروری ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی حکمران ایک سکیم یا کسی فوری خرچے کا اعلان کردیتے ہیں۔ متعلقہ حلقے انتظار کرتے ہیں کہ اب یہ کام ہوگا اور اب یہ کام ہوگا۔ اس انتظار میں یا تو کئی سال گزر جاتے ہیں یا وہ سکیم یا خرچہ غائب ہی ہوجاتا ہے اور عوام کی نظروں میں اعلان کرنے والے سردار کی وقعت صفر ہوجاتی ہے۔ ہمارے یہاں عوام کا سیاسی حکمرانوں سے اعتماد اٹھ جانے یا کم ہوجانے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے اعلانات پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور وجوہات یہی ہوتی ہیں کہ اعلان کرنے سے پہلے اُس معاملے کے مختلف پہلوؤں کا متعلقہ محکموں سے جائزہ نہیں لیا گیا ہوتا۔ قرآن کریم کی ایک آیت مبارک کامفہوم کچھ یوں ہے: ’’اے مومنو! وہ بات نہ کرو جس پر عمل نہیں کرسکتے ہو۔‘‘

اداروں کو اپنے مؤقف کے ماتحت کرنا ڈکٹیٹر والی سوچ ہے۔ (Photo: The Express Tribune)

ہمارے یہاں دفتری رواج کچھ یوں ہے کہ کسی بڑے حکمران نے کہیں پر تقریر کرنی ہو، تو متعلقہ محکمے سے کہا جاتا ہے کہ صاحب کے لیے تقریر تحریر کی جائے۔ وقت بہت کم دیا جاتا ہے اور ہر طرف ایک قسم کی ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ اگر متعلقہ افسران مستحکم نفسیاتی قوت کے مالک ہوں، تو ایمرجنسی کے باوجود سکون اور اطمینان کے ساتھ تقریر اور اعلانات وغیرہ درست انداز سے تحریر ہوکر تیار کیے جاتے ہیں۔ تقریر کے ایک ایک لفظ کا محتاط جائزہ لیا جاتا ہے۔ ورنہ ایک معمولی دماغ کی سوچ کو بڑے سردار کے منھ سے کہلایا جاتا ہے، جس طرح حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے منھ سے یہ ناجائز اورچنگیز خانی الفاظ نکالے گئے کہ ’’اُن علاقوں کو بجلی نہیں دیں گے جہاں بجلی چوری ہوتی ہو۔‘‘ اب یہ خیال بہت چھوٹے دماغ کا ہے اور اسے سربراہِ حکومت کے منھ سے ادا کروایا گیا۔ بدنام زمانہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر) کا ایک شق یوں بھی تھا کہ ایک شخص کے جرم کی سزا اُس کے افرادِ خانہ کو دی جاتی تھی۔ ایک مکمل طور پر غیر اخلاقی اور وحشیانہ طریقہ جو سرحد کے پٹھان قبائل پر حکومت برطانیہ نے نافذ کیا ہوا تھا اور حال ہی میں (جنوری 2018ء) سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد پاکستان کے پارلیمنٹ نے اسے تبدیل کر دیا اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اختیارات قبائلی علاقوں تک بڑھادیئے۔
واپڈا کے اس مؤقف کا کہ ’’اگر کسی علاقے کے چند افراد بجلی چراتے ہوں تو سزا سب کو دی جائے‘‘ قانونی جائزہ اس نکتہ نظر سے شائد نہیں لیا گیا ہے کہ ایک شخص کے جرم کی سزا دوسرے کو کیسی دی جاسکتی ہے؟ یقینا ایسا کوئی قانون موجود نہ ہوگا بلکہ یہ چھوٹے جذباتی لیکن با اختیار شخص کا خیال ہوگا۔
بڑے سرداروں کے پاس نہ زیادہ وقت ہوتا ہے اور نہ ہر چیز کا علم اور مہارت ہوتی ہے۔ اُسے یہی ماتحت محکمے سپورٹ کرتے ہیں۔ اُن کا کسی مؤقف سے اختلاف کرنا کچھ بنیادوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے بڑے سردار کو تحمل کے ساتھ متعلقہ محکمے کے مؤقف کو سمجھنا ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ سردار کا مؤقف درست ہو، اس صورت میں محکمے کو سمجھانا اُس پر فرض ہوجاتا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعلیٰ صاحب دوسرے محکموں کے نکتہ ہائے نظر کو نظر انداز یا رد کرنے سے قبل اُن پر غور کیا کریں گے۔
کسی بھی معاملے پر تنقیدی نظر ڈالنے سے اُس کی کمزوریوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور اُس کی مثبت قوتیں بڑھ جاتی ہیں۔ تنقید کا نہ ہونا، نقص کا نہ نکال باہر کرنا فوائد کی جگہ نقصانات کا سبب ہوتا ہے۔ انجماد، موت ہے۔

کسی بھی معاملے پر تنقیدی نظر ڈالنے سے اُس کی کمزوریوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے. (Photo: GroupMap)

مسلمانوں کی پسماندگی کی واحد وجہ انجماد ہے۔ حالاں کہ خالقِ کُل نے ان کو بھی وہی قوتیں عطا کی ہیں جو کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کو دی ہیں بلکہ مسلمانوں کے پاس قرآن و سنت کی رہنمائی کا عظیم خزانہ بھی ہے۔ اس کے باوجود ان کی پسماندگی اس لیے ہے کہ یہ انجماد کا شکار ہیں۔ دوسروں کی بات نہ ماننا اور اپنی بات پر اَڑ جانا ہمارے یہاں عام ہے۔ حتیٰ کہ شریعت و قوانین کو ہم اپنے مفادات کے خلاف دیکھ کر رد کرلیتے ہیں۔ خود سری اسی کو تو کہتے ہیں کہ اپنی مرضی کی ہر صورت مقدم قرار دی جائے۔ اگر ہم لوگ اپنی مشکلات اورناکامیوں کو احتیاط کے ساتھ دیکھ لیں، تو یہ سب کے سب قواعد، قوانین اور طریقہ ہائے کار کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
محترم وزیراعلیٰ صاحب خود اور اپنے وزرا وغیرہ اور پارٹی پیاروں کو قوانین اور قواعد کے مطابق چلنے کا پابند بنا دیں۔ اب تو عرصۂ حکمرانی قریب الختم ہے۔ پھر بھی جس نے بھی کام کرنے ہوں، اُن کو خود سری کی جگہ قواعد اور قوانین کے مطابق کریں اور کروائیں۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔