حضرتِ ضلع ناظم صاحب کی مساعئی جمیلہ

سرِ دست ایک عجیب سی خبر ملاحظہ فرمائیں، جسے ضلع ناظم محمد علی شاہ صاحب کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ خبر کس حوالہ سے عجیب ہے، آئیے، اولاً خبر پڑھتے ہیں اور ثانیاً اس کے عجب ہونے کا مفصل جائزہ لیتے ہیں۔
’’ضلع ناظم کی ڈی پی اُو سے ملاقات، کٹ گاڑیوں پر جرمانے عائد نہ کرنے پر اتفاق، علی شاہ نے عوامی تشویش سے آگاہ کیا اور کٹ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کو غریبوں کا معاشی قتل قرار دیا، ڈی پی اُو واحد محمود نے میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے گاڑیوں کو پرچہ کرنا اور جرمانے سے روک دیا، ضلع ناظم۔‘‘
درج بالا پیراگراف میں خبر کی سرخی اور ضمنی دونوں کو من و عن تحریر کیا گیا ہے،صحتِ زبان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے خبر کی تفصیل پر نظر ڈالتے ہیں جس میں حضرتِ ضلع ناظم صاحب، دبنگ سلمان خان کو بھی دو کوس پیچھے چھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہم غریبوں سے روزگار چھیننے اور ان کے معاشی قتل کرنے نہیں دیں گے۔‘‘ خبر میں آگے رقم ہے: ’’ضلع ناظم نے آگے بتایا کہ ڈی پی اُو نے میرے تجویز کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے گاڑیوں کو پرچہ کرنا اور جرمانے عائید کرنے سے روک دیا اور ہدایات جاری کردئیے۔‘‘

ضلع ناظم کی ڈی پی او سے ملاقات کی تصویر۔ (فوٹو: روزنامہ آزادی)

اب تفصیل میں درج شدہ زبان کی صحت سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے اس نکتہ پر بحث کرتے ہیں کہ کس قانون کے تحت حضرتِ ضلع ناظم صاحب ایک غیر قانونی کام کا راستہ روکنے والے ڈویژنل پولیس آفیسر واحد محمود صاحب پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ یہ ’’قانونی راستہ‘‘ اگر حضرتِ ناظم صاحب ہمیں بھی دکھا دیں، تو ممنونِ احسان رہیں گے، کیوں کہ ہم بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، ہمارا بھی ایسا کام آسکتا ہے۔
ذکر شدہ خبر کو پڑھنے اور بار بار پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرتِ ناظم صاحب کو شائد اس بات کا علم نہیں کہ اصطلاح ’’غیر قانونی‘‘ دراصل ہے کیا شے؟ چلئے، اس حوالہ سے انگریزی کی مشہور ڈکشنری ’’آکسفورڈ‘‘ سے گرد جھاڑتے ہیں کہ وہ اس اصطلاح کے حوالہ سے کیا کہتی ہے؟ لو جی، ’’آکسفورڈ‘‘ اس کو کچھ یوں بیان کرتی ہے:
".Something that is illegal is against the law”
یعنی ہر وہ چیز جو قانون کے خلاف ہے، ’’غیر قانونی‘‘ ہے۔ اس معمے کو مزید حل کرنے کی کوشش کروں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ جیسے پولیس روزانہ منشیات فروشوں، جیب کتروں، اٹھائی گیروں، جعلی ادویہ فروشوں، گراں فروشوں، ملاوٹ کرنے والوں اور اس قبیل کے دیگر مجرموں کو پکڑتی ہے، تو یہ اس لیے کہ ذکر شدہ لوگ ’’غیر قانونی‘‘ کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ جیسے منشیات فروش، نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اتارتے ہیں۔ جیب کترے، غریب عوام کی جیبیں صاف کرتے ہیں، وعلیٰ ہذا القیاس۔

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق: ".Something that is illegal is against the law”
(Photo: guardian.ng)

اب دوسری طرف عوامی نمائندہ ہونے کے ناتے حضرتِ ناظم صاحب کا یہ حق ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے عوام کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غیر قانونی دھندا چلانے والوں کے لیے وہ پولیس افسران اور انتظامیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے پھریں گے۔ اس طرح اگر پولیس افسران کی طرف سے ذکر شدہ ’’غیر قانونی‘‘ کام کرنے والوں کے ساتھ نرمی برتنے کے اخباری بیان جاری ہوتے رہیں گے، تو یہ ملک و قوم کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔ ڈی پی اُو صاحب ایک سلجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ سوائے اس ایک اخباری بیان کے بلامبالغہ ان کی کارکردگی شاندار ہے۔ ٹریفک کے حوالہ سے ٹریفک وارڈنوں کی چابک دستی اور خاص کر رائڈر سسٹم نے جو مسائل حل کیے ہیں، واقعی ان کا یہ عمل لائقِ تحسین ہے۔ اس حوالہ سے کچھ تحریر کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
آمدم برسر مطلب، حضرتِ ناظم صاحب کی یہ دلیل بڑی بودی ہے کہ ’’ہم غریبوں سے روزگار چھیننے نہیں دیں گے یا ان کا معاشی قتل ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
حضرت! چرس اور ہیروین بیچنے والے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو محض جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے یہ گھناونا کاروبارکرتے ہیں۔ کیوں کہ ماشاء اللہ ہم ایک ایسی ریاست کے دایرۂ اختیار میں ہیں جس کے حکمران ’’صمٌ بکمٌ عمیٌ‘‘ کی عملی تصویر ہیں۔ ریاستِ پاکستان کی ترجیحات میں غربت مکانا، عام عوام کی زندگی میں بہتری لانا، مفت تعلیم و صحت جیسی فضولیات سرے سے شامل ہی نہیں۔ جتنے منتخب لوگ ہیں، وہ بے دست و پا ہیں یا انہیں بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ اس تفصیل میں نہ ہی جائیں، تو بہتر ہے۔
تو مختصر یہ کہ حضرتِ ناظم صاحب! کٹ گاڑیوں کا کاروبار ٹھیک اسی طرح ’’غیرقانونی‘‘ ہے جس طرح چرس، دیسی شراب، ہیروین، آیس اور اس قبیل کی دیگر نشہ آور اشیا بیچنے کا دھندا ہے۔ حضرت، مجھے تو ابھی سے یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں کل کلاں آپ ان کے لیے بھی انتظامیہ یا پولیس کے اعلیٰ افسران پر اثر انداز ہونے کی ’’مساعئی جمیلہ‘‘ نہ فرما دیں۔ اور اگر ایسا ہوگیا، تو اس سے اگلے روز اخبار میں جو خبر شائع ہوگی، اس کا متن پھر کچھ یوں ہی ہوگا: ’’ضلع ناظم کی ڈی پی اُو سے ملاقات، چرس، گانجھا، افیون، دیسی شراب، آیس اور دیگر نشہ آور اشیا بیچنے والوں پر جرمانے عائد نہ کرنے پر اتفاق، محمد علی شاہ نے عوامی تشویش سے آگاہ کیا اور نشہ آور اشیا بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کو غریبوں کا معاشی قتل قرار دیا، ضلع ناظم۔‘‘

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔