دس دسمبر 2017ء کے روزنامہ آزادی میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم انجینئر شاہد خاقان عباسی کی جھنگ میں پاؤر پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر دی گئی تقریر شائع ہوئی ہے جس سے یہ افسوسناک صورتحال سامنے آگئی کہ خاقان جیسے پڑھے لکھے اور اعلیٰ پس منظر کے سردار کو بھی محکموں نے گمراہ کر دیا۔ میں خود سرکاری ملازمت میں رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ سرکاری لوگ کس طرح اپنے افسران اور سیاسی افراد کو گمراہ کرتے ہیں۔ اُن کو ’’آل اُو کے‘‘ بتا کر حقائق کو چھپاتے ہیں۔ چوں کہ سرکاری ملازمین غریب لوگ ہوتے ہیں، اُن کو سب سے زیادہ دلچسپی اپنی روزی روٹی سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہ سیاسی پہلوانوں کی بے وقوفی کے سامنے رکاؤٹ نہیں بنتے اور ہر وہ کام کر دیتے ہیں جن کا یہ پہلوان اُن سے تقاضا کرتے ہیں۔ نتیجہ خراب حکمرانی اور عوام کی بد حالی و پریشانی اور بین الاقوامی شرمندگی کی شکل میں نکلتا ہے۔ چوں کہ ایک طرف سرکاری لوگوں میں ’’اپنے افراد‘‘ کی بڑی کاشت کی گئی ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ غیر محفوظ ہوتے ہیں اس لیے وہ پہلوانوں کو غلطی سے منع نہیں کرسکتے۔ نتیجہ سیاسی پہلوانوں کی ناکامی کی شکل میں نکل آتا ہے۔
سیاسی حکمرانوں کے ارد گرد ’’مخصوص اپنوں‘‘ کا دائرہ ہوتا ہے جن کی معلومات عموماً یک طرفہ ہوتی ہیں۔ کچھ نفسیاتی وجوہات بھی ہوتی ہیں، اس لیے وہ حکمرانوں کو درست بات یا تو بتا نہیں سکتے یا بتاتے نہیں۔ حالاں کہ ہر سیاسی سردار کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اُس کا مشیر قابل، ذہین، معاملہ فہم، زیرک اور دلیر ہو۔ اور سردار کے منھ سے جو بات نکلوائی جاتی ہو، اُس کی بہت باریک بینی سے ایڈوانس میں مطالعہ کرتا ہو۔
زیرِ نظر تحریر میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کے منھ سے نا مناسب اور جھوٹ پر مبنی الفاظ کہلوائے گئے۔ ایک اور سردار غالباً عابد شیر علی کے منھ سے بھی اس قسم کے الفاظ نکلوائے گئے تھے۔ چوں کہ بر سرِ اقتدار افراد کے الفاظ زیادہ وزن رکھتے ہیں، اس لیے اُن سے کہلوانے والے الفاظ کی باریک بینی سے قبل از تقریر درستگی ضروری ہوتی ہے، تاکہ دنیا کو غلط یا نا پسندید پیغام نہ جائے۔
’’لوڈشیڈنگ ختم کردی‘‘ خاقان صاحب کے ان الفاظ پر عوام کا ہر فرد مسکرا دیتا ہے۔ بعض دل جلے بد دعا بھی دیتے ہیں۔ نا سمجھ کہتا ہے کہ وزیرِاعظم بھی جھوٹ بولتا ہے۔ یہ بہت بری بات ہوتی ہے کہ حکمران عوام کی نظروں میں بے وقعت ہوجاتے ہیں۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی، حسبِ سابق جاری ہے۔ کمی بیشی ہوگئی ہوگی لیکن عوام اس عذاب سے نکالے نہیں گئے ہیں۔ بجلی چوروں کے اس ملک میں لوڈ شیڈنگ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
دوسری بات جو بہت ہی عامیانہ ہے اور دنیا بھر کے دانشور خاقان عباسی صاحب پر ہنسیں گے: ’’بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہوگی۔‘‘ یہ الفاظ اپنے منھ پر آپ طمانچہ مارنے والی بات ہے۔
نمبر ایک یہ کہ حکومت اتنے نا اہل افراد کے ہاتھ میں ہے کہ عوام اُس سے باغی ہیں اور وہ بجلی کی قیمت ادا نہیں کرتے۔ حکمران بے وقعت ہیں۔ عوام ان کے احکامات کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ یوں قومی اور بین الاقوامی حلقوں کو یہ پیغام پہنچتا ہے کہ یہ حکمران غاصب بھی ہیں اور نا اہل بھی، کہ لوگ ٹیکس ٹو ٹیکس میں اُس سہولت کی قیمت بھی ادا نہیں کرتے جو اُن کو مہیا کی جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ کم ظرفی کا یہ فقرہ وزیراعظم جیسی شخصیت کے منھ سے نکلوانا بہت افسوسناک بات ہے۔ یہ تقریر جھاڑنے سے قبل خاقان صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے ’’وزیرِ لوڈشیڈنگ‘‘ سے پوچھ لیتے یا محکمہ بجلی کے افسرِ اعلیٰ سے معلوم کرلیتے کہ کیا جن علاقوں میں لوڈشیڈنگ کروائی جاتی ہے، وہاں کے عوام سب کے سب بجلی چراتے ہیں؟ اگر نہیں، تو بجلی کے بل ادا کرنے والے لوگوں کو کیوں لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رکھا جاتا ہے اور اُن کو بے شمار مشکلات دی جاتی ہیں؟ واپسی میں حکمرانوں کو بد دعائیں اور نفرتیں ملتی ہیں۔ ’’ن حکومت‘‘ نے گذشتہ پانچ سالوں میں عام لوگوں کو کون سی سہولیات دیں؟ کیا خوراک سستی ہوئی؟ کیا ایندھن سستا ہوا؟ کیا علاج معالجہ سستا ہوا؟ کیا روزگار کے مواقع بڑھ گئے؟ کیا عدل کے طریقے آسان ہوگئے؟ کیا سر چھپانے کی سہولیات بڑھ گئیں؟ کیا سفر کے مسائل کم ہوگئے؟ کیا تعلیم سستی ہوگئی؟ کیا مارکیٹ کی خون آشامی کم ہوگئی؟ کیا سمگلنگ اور بے ایمانیوں میں کمی آگئی؟ آخر کس اقدام یا کام پر’’نون حکومت‘‘ فخر کرتی ہے؟
فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ایک بدنام زمانہ اور مردود قانون ہے، جس کو انگریزوں نے آزادی پسند پختونوں پر نافذ کیا تھا اور تادم تحریر نافذ ہے۔ کیا وزیراعظم اور اُن کے بعض وزرا وغیرہ بھی اس کالے قانون کے حامی ہیں؟ اس قانون کے تحت اگر ایک شخص جرم کرے، تو اُس کے سارے خاندان اور قبیلے والوں کو پکڑا جاتا ہے۔ وہی مردود طریقہ اسلامی جمہوریہ کا حکمران طبقہ آج بھی اس شکل میں بے گناہ شہریوں پر نافذ کررہا ہے کہ جس علاقے میں کوئی بجلی چوری کرتا ہو، تو پورے علاقے کو بجلی نہیں دی جائے گی۔
افسوس ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب، کہ آپ نے بھی عدل کی طرف توجہ نہ دی۔ آپ بھی ایک کے گناہ کے لیے دوسرے کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
پی ایم صاحب! آپ سے ہمیں ایسی اُمید نہیں تھی۔ انصاف کروائیں۔ قابل حکمران چوروں کو پکڑتے ہیں، بے گناہوں کو سزا اور اذیت نہیں دیتے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔