درال دریا کی فریاد

گذشتہ دنوں سوات کے خوبصورت سیاحتی مقام بحرین کے حلق دریائے درال کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی، تو سکتہ طاری ہوگیا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار دریائے درال کو مردہ دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس تصویر کو نوجوانوں نے اپنے فیس بک صفحوں پر کئی معصوم سوالات کے ساتھ چڑھایا تھا۔ وہ معصومانہ سوال پوچھ رہے تھے کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون؟ ہم، ہماری مجبوری یا حکومت کی بے حسی؟ ہم کیوں کسی اجتماعی مسئلے پر متحد نہیں ہوسکتے؟ ہمارے مفادات کیوں اجتماعی مقصد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں؟ درال ہمارا ورثہ ہے، بحرین کا جھومر ہے، سوات کا ورثہ ہے۔ اس سے ہماری یادیں وابستہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارا بچپن کھیلتا ہوا گزرا ہے۔ ہم اسے یوں مرتے نہیں دیکھ سکتے۔ سب کو کچھ کرنا ہوگا۔ بڑے، چھوٹے، بزرگ، نوجوان، غریب اور امیر سب نے مل کر اس کو بچانا ہے۔ اس سے ہماری شناخت بھی وابستہ ہے۔ اس سے ہمارا ماحول بھی تر و تازہ ہے۔ ساتھیو، درال کو یوں تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ اس تباہی کا اِزالہ کیا ہے؟ اس بربادی کا خمیازہ کیا ہے؟ ہمیں ایسی ترقی سے کیا ملے گا؟ ہمارے علاقے کو کیا فائدہ؟

دریا کے پانی کا رُخ موڑنے کے بعد اس پر اب کسی برساتی نالے کا گمان ہوتا ہے۔ (فوٹو: لکھاری)

یہ نوجوان خود کو بھی کوس رہے ہیں، اپنے بزرگوں سے بھی شاکی ہیں، حکومت سے بھی ناخوش ہیں۔ اپنی بے بسی کو بھی رو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ تھوڑا بہت عزم کا اعادہ بھی کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو کیا خبر کہ ان کا پیارا ملک اب بھی نوآبادیاتی نفسیات میں جکڑا ہوا ہے۔ ان کو کیا علم کہ ان کا ملک اور اس کے ادارے صرف ان لوگوں کی سنتے ہیں جن کے پاس سیاسی طاقت ہو، وہ کسی کے آلہ کار ہوں یا پھر تشدو پر اتر کر ریاست کے اداروں کو مجبور کریں۔ ان برخورداروں کو کیا پتا کہ ان کے ملک میں سیاسی طور پر کمزور کمیونٹیوں کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کو کیا پتا کہ کس طرح ہمارا اجتماعی شعور مر چکا ہے اور ہم انفرادی مفادات کے پیچھے دیوانہ وار سرگرداں ہیں۔ ان نوخیزوں کے مخلص خون اور خدمت خلق کے جذبے کو کون سمجھائے کہ کس طرح ہمارے بڑوں اور بزرگوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ کتاب کی زبان سمجھنے والے ان نوجوانوں کو کون بتائے کہ یہ دنیا صرف طاقتوروں کی دنیا ہے اور ان کے ملک میں ساری سیاسی جماعتیں اور ان کا مرکزِ نگاہ صرف بڑے شہر ہوا کرتے ہیں۔ ان کو یہ پڑھانے سے ڈر سا لگتا ہے کہ یہاں ہم جیسے حاشیہ برادروں کی کوئی وقعت نہیں۔
ہمارے پیارے ملک میں آبی و قدرتی وسائل پہاڑوں میں ملتے ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ کرۂ ارض پر زندگی بسر کرنے کے لئے یہ وسائل سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انسان کی بقا ان ہی وسائل پر انحصار کرتی ہے، مگر ان وسائل کے مالک ہوتے ہوئے بھی پربتوں پر بسیرا کرتے ہوئے علامہ اقبال کے یہ شاہین تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ ان پہاڑوں کے سیدھے سادے باشندوں کو اب بھی کمتر جانا جاتا ہے۔ ان کے وسائل کا استحصال کرکے فوائد بڑے شہروں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ یہ سلوک صرف سوات تک محدود نہیں بلکہ گلگت بلتستان، چترال، دیر، کوہستان وغیرہ سب کے ساتھ یکساں طور پر روا رکھا جاتا ہے اور دریائے درال تو اس سلوک کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔
درال دریا اوپر وادی میں درال جھیل اور دوسری جھیلوں سے سیراب ہوتا ہے۔ وادئ درال سوات کی ذیلی وادیوں میں سے ایک خوبصورت وادی ہے اور دریائے درال، دریائے سوات کی تمام ذیلی شاخوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پہلے نمبر پر دریائے اتروڑ ہے جو کالام کے بیچ آتا ہے اور سب شاخوں میں سب سے بڑا ہے۔

درال جھیل کا ایک سحر انگیز منظر (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

درال وادی میں بحرین سے کوئی چھے، سات کلومیٹر اندر وادی میں پسواڑ نامی گاؤں کے ساتھ دریائے درال کو بحرین کے مشرقی پہاڑ (شُنجی) کے اندر سرنگ کے ذریعے گزار کر پران گام (زوڑ کلے) میں نکال کر پائپ کے ذریعے نیچے بحرین سے تقریباً ایک کلومیٹر مدین کی طرف، ترال موڑ کے مقام پر، دریائے سوات کے مغربی کنارے بنائی گئی ٹربائن پر ڈال کر کوئی 36 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کو درال خوڑ ہائڈرو پاؤر پروجیکٹ کہا جاتا ہے جو کہ اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ گذشتہ دنوں درال دریا کو موڑ کر اس ٹنل میں ڈالا گیا، تاکہ اس منصوبے کے انفراسٹرکچر کے معیار کو آزمایا جاسکے ۔
اس منصوبے پر مقامی لوگوں کے تحفظات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہاں کے باشندے اس منصوبے کے ری ڈیزائن کے لئے کئی سالوں سے مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اس منصوبے کے خلاف مقامی لوگ عدالت بھی گئے ہیں لیکن صوبے کی گذشتہ حکومت نے ہر طرح کے حربے استعمال کرکے ان لوگوں کی ایک نہ مانی اور اس مہنگے منصوبے پر کام شروع کیا۔ اس منصوبے کی فیزیبلٹی (Feasibility) نوے کی دہائی کے اواخر میں کی گئی تھی۔ تب سے یہ منصوبہ سرد خانے میں پڑا تھا۔ 2010ء کے اوائل میں جب سوات میں شورش تھم گئی، تو ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرض سے منظور شدہ اس منصوبے پر کام کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس وقت کی حکومت نے پن بجلی کے صوبائی ادارے سرحد پن بجلی ترقیاتی ادارے SHYDO ،جو کہ اب پختون خوا ادارہ برائے ترقئی توانائی (Pakhtunkhwa Energy Development Organisation) یا پیڈو PEDO بنا ہے، کے ذریعے اس پر کام کرنے کی ٹھانی۔ بحرین کے مقامی باشندوں کو جب پتا چلا، تو انہوں نے از خود اس کا جائزہ لیا اور اس منصوبے کو اس کی موجودہ صورت میں بحرین کے ماحولیات، زراعت، گھریلو پانی، سیاحت اور حسن کے لئے نقصان دہ پایا۔ مقامی باشندوں نے جرگوں کے ذریعے اپنی آواز اٹھانی شروع کی۔ انہوں نے اپنے خدشات سے ایشائی ترقیاتی بینک (Asian Development Bank) کو آگاہ کیا۔ متعلقہ ادارے نے از سر نو اس منصوبے کے نقصانات کا جائزہ لے کر اس کے لئے طے شدہ سات ارب روپے فنڈز روک دیا اور اس منصوبے کو اپنی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا لیکن اب ’’پیڈو‘‘ کے مطابق ایشائی بینک نے اس منصوبے کے لئے حکومت کو قرضہ فراہم کیا ہے۔
اس وقت کی حکومت نے مقامی آبادی کو رام کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے۔ مقامی لوگوں کی طاقت کے اتحاد کو توڑنے کے لئے وسائل کی پرانی تقسیم پر توروالی قبائل کے بیچ پھوٹ ڈالی۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح ضلع سوات میں تعینات ڈپٹی کمیشنر نے اپنے دفتر میں بحرین کے لوگوں کے جرگے میں شامل افراد کا تعارف ان کی ذیلی قبائلی شاخوں کے ساتھ کرایا۔ اس وقت کی قوم پرست حکومت کا یہ حربہ کارگر ثابت ہوا اور مقامی آبادی ذیلی شاخوں میں تقسیم ہوگئی۔
اس منصوبے سے منسلک خدشات کے اِزالہ کے لئے ایک کمیٹی (Grievances Redressal Committee) یعنی کمیٹی برائے اِزالہ خدشات (GRC) بنائی گئی جس میں بحرین خاص کے لوگوں کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی سے ایسے تین، چار لوگوں کو شامل کیا گیا جن کا تعلق نہ صرف حکومتی پارٹی سے تھا بلکہ اس منصوبے میں ان کی زمین مہنگے داموں فروخت بھی ہونی تھی۔ ضلع سوات کے ڈی سی آفس میں جو نام تجویز کئے گئے تھے، ان میں سے ایک فرد کو بھی اس کمیٹی میں شامل نہ کیا گیا۔ جلدی جلدی میں ان لوگوں کی ملاقات اس وقت کے شیڈو کے اٹھائیسویں (28th) اجلاس میں وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی سے کروا کر یہ تاثر دیا گیا کہ بحرین کے لوگوں کا اس منصوبے سے متعلق کوئی خدشہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ کو تاہم احساس اس وقت ہوا جب وہ اس منصوبے کا افتتاح کرنے بحرین آئے اور یہاں لوگوں کی مکمل ہڑتال کی وجہ سے کرفیو جیسا ماحول پایا۔ دل برادشتہ ہوکر مقامی باشندے چالیس درخواست گزاروں سمیت اعلیٰ عدالت چلے گئے۔ اس وقت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ماحولیات کے حوالے سے کافی حساس مشہور ہوئے تھے۔ انہوں نے کیس کو انوائرنمنٹل ٹریبونل (Environmental Tribunal) بھیج دیا۔ یہ ٹریبونل اس وقت فعال نہ تھا اور تین ارکان میں سے صرف ایک رکن تعینات تھا۔ کوئی چیئرمین بھی نہیں تھا۔ درخواست گزار اس کیس کو واپس ہائی کورٹ لے آئے ۔ اک آدھ سماعت کے بعد چیف جسٹس نے اس کیس کو دوبارہ مذکورہ ٹریبونل بھیجا۔ اس وقت وہاں صرف دو ارکان تھے۔ مہینے گزر گئے ٹریبونل نے کوئی سماعت نہیں کی۔ ایک بار پھر کیس کو ہائی کورٹ لایا گیا۔ ہائی کورٹ نے دو سماعتوں کے بعد اپیل کو اس ہدایت کے ساتھ خارج کردیا کہ اسے متعلقہ ٹریبونل میں لے جایا جائے۔ یوں مقامی باشندے ہائی کورٹ اور انوائرنمنٹل ٹریبونل کے بیچ لٹکتے رہے۔ حکوت نے کیس کو کمزور کرنے کے لئے رقم کا استعمال بھی کیا۔ جن اکیس لوگوں سے زمین خریدنی تھی، ان کو جلدی جلدی ادائیگی کی گئی۔ صرف یہ نہیں بلکہ اپنے پلان کے عین برعکس حکومت نے سو سے زائد افراد سے زمینیں خرید لیں۔ مشترکہ شاملات کے لئے بھی ایک دو افراد کے نام متنازعہ چیک دیے گئے تاکہ عدالت میں درخواست گزاروں کو بلیک میلرز ثابت کیا جاسکے۔
اس حوالہ سے حکومت نے سوات میں مقیم سیکورٹی اداروں کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی، مگر بحرین کے مقامی لوگوں نے ان اداروں سے مسلسل گفتگو کرکے انہیں اپنے تحفظات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔
بحرین کے زعما اور سماجی کارکنان کے ساتھ اس وقت کی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے خوب کھلواڑ کیا۔ دھوکا دہی اور وعدوں کی مدد سے انہیں ٹرخاتے رہے۔ حکومت وقت کے نمائندوں اور ان کے کارندوں کے ہاتھ جنگلات اور آبی وسائل پر توروالی علاقے کے مشرقی حصے کی تقسیم ایک مضبوط ہتھیار ثابت ہوئی جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں پرانے تنازعات دوبارہ ابھر آئے۔ یوں اس منصوبے کے متاثرین کا اتحاد ٹوٹتا چلا گیا۔ توروال علاقے کی مغربی پٹی یعنی دریائے سوات سے سڑک کی طرف کا علاقہ ،شاگرام تا کالام، توروالی قومیت کے چار بڑے قبائل نریڈ، باسیٹ، کیوڑ اور بٹ میں 64 روپے دوتر کے حساب سے فی قبیلہ 16روپے تقسیم ہے۔ اس تقسیم کی رو سے کئی مقامات پر ملکیت کی حدیں واضح نہیں جس سے ان قبائل کے بیچ تنازعات ہنوز قائم ہیں۔ اس مبہم تقسیم کی وجہ سے توروالی برادری کے ان چار ذیلی قبائل میں کئی تنازعات دہائیوں سے چل رہے ہیں۔ عام حالات میں یہ تنازعات مخفی رہتے ہیں، لیکن کسی اجتماعی مسئلے کی صورت میں ان تنازعات کو توروالی برادری کی طاقت کے توڑنے کے لئے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس مبہم تقسیم کی وجہ سے یہاں کے جنگلات کو بھی سخت خطرات درپیش ہیں کہ سب کی ملکیت ہوتے ہوئے بھی یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتے اور یوں احساس ملکیت کم پڑجاتا ہے جس کی وجہ سے بچاؤ کی فکر بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ اس صورت حال کو محققین اکثر اشتراک کا المیہ بھی کہتے ہیں۔ توروالی برادری کو ان تنازعات کے خاتمے کے لئے یرک یعنی جرگے کے ذریعے ہی کوئی راستہ نکالنا ہوگا، ورنہ یوں ہی محروم رہیں گے۔
دریائے سوات کی دوسری طرف (یعنی مشرق کی طرف) توروالی برادری میں یہ تقسیم اس طرح نہیں ہے۔ وہاں ہر گاؤں سے منسلک جنگلات کی حدیں متعین ہیں اور متعلقہ گاؤں والے اس پر قانون کے مطابق تصرف کا حق رکھتے ہیں اور اسی طرح بچاؤ کا انتظام بھی کرتے ہیں۔

دریائے سوات کا ایک دلفریب منظر (Photo: webchutney.pk)

درال ہائڈرو پاور پراجیکٹ کی آبادکاری دستاویز (Settlement Plan) کی رو سے بحرین کے لئے پونے تین کروڑ روپے کا واٹر سپلائی سکیم، بحرین میں ووٹیکنیکل کالج اور اسپتال بھی شامل تھے۔ ابھی تک ان میں سے کسی ایک پر بھی کام شروع نہ ہوا۔ اس کے علاوہ اس پلان میں مقامی لوگوں کے لئے ملازمتوں اور روزگار کے مواقع بھی شامل تھے۔ اگر روزگار سے مراد چند افراد کو اس منصوبے کی کنسٹرکشن کمپنی (Ghulam Rasool Company-GRC) کی طرف سے چھوٹے چھوٹے ٹھیکے مراد ہیں، تو وہ واقعی ہوا ہے۔ مستقل ملازمتیں مقامی نوجوانوں کو اس بہانے پر نہیں ملیں کہ ان کے پاس درکار ٹیکنیکل تعلیم نہیں ہے۔اسی ٹیکنیکل تعلیم کے لئے اُس کالج کا کیا بنا جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟
اس کے علاوہ متعلقہ ایم پی اے نے کئی بار جلسوں میں ان جیسے کئی ایسے فوائد لوگوں کے سامنے گنائے ہیں کہ اگر ان کو حقیقی تصور کیا جائے، تو بحرین کی تقدیر بدل جائے گی۔
اس منصوبے سے متعلق چند کہانیاں بھی مقامی لوگوں میں پھیلائی گئی ہیں۔ اسی طرح مقامی لوگوں کے ہاں اس منصوبے سے متعلق کچھ غلط فہمیاں بھی پھیل گئی ہیں۔
پہلی کہانی پیڈو کے اہلکاروں اور آلہ کاروں کے ذریعے یہ پھیلائی گئی ہے کہ بحرین کے لئے اس منصوبے میں کئی فوائد تھیِ مگر ان کی ہڑتال کی وجہ سے وہ فوائد ان کو نہیں مل رہے۔ لوگ ہڑتال فائدوں کے لئے کر رہے ہیں اور یہاں مضحکہ خیز طور پر سادہ لوح لوگوں کو اُلٹا سبق پڑھایا جارہا ہے ۔ وہ فائدے کہاں ہیں جن کو اس پلان میں بھی لکھا گیا ہے؟ یہ سارے بہانے ہیں اور مقامی لوگوں کو مزید بے وقوف بنانا ہے۔ لوگ احتجاج کریں یا نہ کریں، ان کا حق ان کو ملنا چاہئے۔ حق نہ ملے، تو لوگ احتجاج کرتے ہیں۔
مقامی لوگ ٹھیکیدار یعنی کنسٹرکشن کمپنی کو ہی اس منصوبے کا مالک سمجھ رہے ہیں۔ واضح ہو کہ اس منصوبے کا مالک صوبائی حکومت ہے اور اس کا ادارہ پیڈو اس کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ لوگوں میں کنسٹرکشن کمپنی GRC تو مشہور ہے لیکن شکایات کے اِزالے کے لئے اس کمیٹی یعنی Grievances Redressal Committee-GRC کا کسی کو علم نہیں۔ واضح ہو کہ اس کمیٹی کے ارکان میں مقامی ایم پی اے، ڈی سی سوات سمیت چند مقامی لوگ بھی شامل تھے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کی بجلی بحرین یا پھر پورے ضلعے کو دی جائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے سوات میں بجلی کی کمی پر قابو پایا جائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عوام دوست کوئی پالیسی موجود نہیں۔ پانی اور بجلی کی مد میں تو ہماری پالیسیاں بہت ہی مرکز مائل ہیں۔ ان پن بجلی گھروں سے بجلی نیشنل گریڈ میں ڈالی جائے گی، جہاں سے حکومت کی مرضی ہے کہ جس علاقے میں اسے ارسال کرے۔ اس پر لوگوں کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
اسی طرح رائلٹی یعنی وہ رقم جو اِن وسائل کی مد میں ملتی ہے۔ رائلٹی کی تقسیم کا اختیار بھی صوبے کی صوابدید پر ہے۔ ان کی پالیسیوں میں کہیں بھی نہیں لکھا گیا کہ یہ رائلٹی ان علاقوں کو جائے گی جہاں یہ قدرتی وسائل پائے جاتے ہوں۔ مثلاً ہمارے جنگلات کا دس فی صد ترقیاتی فنڈ ہمارے علاقوں کی ترقی کے لئے خرچ نہیں ہوتا بلکہ کہیں اور خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال بجلی کی رائلٹی کی ہے۔ چاہئے تو یہ کہ ان وسائل کی رائلٹی ان علاقوں اور ضلعوں میں خرچ کی جاتی جہاں یہ منصوبے اور وسائل موجود ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو بلوچستان میں کوئی ضلع پسماندہ نہ ہوتا اور نہ ہی ضلع کوہستان ترقی میں سب سے پیچھے ہوتا۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کی بجلی بحرین یا پھر پورے ضلعے کو دی جائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے سوات میں بجلی کی کمی پر قابو پایا جائے گا، مگر ایسا نہیں ہے۔ (Photo: dawn.com)

درال منصوبے پر شروع میں مقامی آبادی متحد نہیں رہ سکی۔ بعد میں بھی کسی نے موجودہ حکومت کے وزیروں یا افسروں سے اس منصوبے پر گفتگو کی نہ رابطہ۔ یوں یہ منصوبہ حکومت اور کمیشن خوروں کی خواہش کے مطابق آگے بڑھتا گیا اور اب تقریباً مکمل ہے ۔
اب کیا کیا جاسکتا ہے؟
متعلقہ ادارے اور حکومت پر اتنا پریشر ڈالا جائے، تاکہ وہ درال دریا میں پانی اپنے وعدوں کے مطابق چھوڑ دے۔ بحرین کی صفائی اور ماحولیات کے لئے حکومت ایک جامع منصوبہ تشکیل دے جس میں واٹر سپلائی سکیمز، بحرین قصبے کی حدود میں دریا کے کنارے گرین بلٹ اور سڑک کی تعمیر، بحرین کے لئے کالج اور اسپتال کی تعمیر اور درال سڑک کی پختگی شامل ہوں۔
پورے ضلعے کے لوگ حکومت سے مطالبہ کریں کہ اس میں صوبے کی بجلی سوات میں ہی رہنی چاہئے اور بحرین اور گرد و نواح کے لئے اسے کم نرخوں میں فراہم کیاجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو رقم رائلٹی کی مد میں اس منصوبے سے ملے گی، اسے صرف ضلع سوات کی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔