صوفی محمد ضلع لوئر دیر کے نواحی علاقے میدان میں 1933ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم صوابی کے علاقے پنج پیر سے حاصل کی۔ 1980 ء کی دہائی میں صوفی محمد ایک دینی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی) کے سرگرم رکن رہے، لیکن جلد ہی 1992ء میں تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ نامی ایک تنظیم بنائی اور جماعت اسلامی سے اپنے راستے الگ کیے۔ اس تنظیم کی گرفت ملاکنڈ ڈویژن سمیت شمالی علاقہ جات میں کافی مضبوط رہی۔ تنظیم کا مقصد اس خطے میں تشدد کے ذریعے شریعت کا نفاذ عمل میں لانا تھا۔
9/11 کے واقعے کے بعد اکتوبر 2001ء میں صوفی محمد اپنے ساتھیوں سمیت امریکہ کے خلاف لڑنے کے لیے گئے۔ انہوں نے فتویٰ جاری کیا کہ امریکہ کے خلاف جہاد جائز ہے۔ لوگوں کو "جہاد” میں شرکت کے لیے بھی کہا، لیکن جلد ہی طالبان کی گرفت افغانستان میں کمزور پڑگئی، تو انہیں واپس پاکستان لوٹنا پڑا۔ پاکستان آتے ہی انہیں گرفتار کیا گیا۔
مولانا صوفی محمد کو 2008ء تک جیل میں رہنے کے بعد اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن میں امن و امان قائم کرنے میں کردار ادا کرے گا اور تحریکِ طالبان کے سربراہ جو کہ صوفی محمد کے داماد بھی ہیں، ان سے مذاکرات کامیاب بنانے میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعاون کرے گا، جب کہ اس خطے میں نفاذِ شریعت کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اس طرح 16 فروری 2009ء کو دونوں اطراف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ ان مذاکرت میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے نظامِ عدل ریگولیشن کے نام سے سوات کے علاقے کے لیے ایک قانون نافذ کیا۔ 19 اپریل 2009ء کو صوفی محمد نے کہا کہ جمہوریت غیر اسلامی ہے، لہٰذا ملاکنڈ ڈویژن سے چار دن کے اندر تمام ججز کو ہٹا دیا جائے اور شرعی کورٹ کا نفاذ عمل میں لایا جائے، جہاں قاضی فیصلہ کرے گا۔
جون 2009ء کو پاک فوج نے آپریشن "بلیک تھنڈر سٹارم” جو کہ طالبان کے خلاف تھا، میں صوفی محمد کے نائب اور ترجمان کو گرفتار کیا جب کہ صوفی محمد روپوش ہوگیا۔ 26 جولائی 2009ء کو حکومتِ پاکستان نے طالبان کو فروغ دینے کی پاداش میں صوفی محمد کو ان کے دو بیٹوں سمیت حراست میں لیا جب کہ اگست 2009ء کو پولیس نے ان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے چارجز لگائے۔
جنوری 2011ء کو صوفی محمد نے "اینٹی ٹیررسٹ” کورٹ میں بیان دیا کہ وہ کسی ملک خلاف عناصر کو فروغ دینے میں ملوث نہیں ہے۔ اس کا مقصد تو فقط ملاکنڈ ڈویژن میں شریعت کے نفاذ کو فروغ دینا تھا۔
صوفی محمد نے 92 برس کی عمر میں صحت کی کمزوری اور عمر کے تقاضے کی وجہ سے اپنے بیٹوں کی مدد سے عدالت میں رہائی کے لیے اپیل کی تھی جو کہ پیر 9 جنوری 2018ء کو جسٹس وقار احمد سیٹھ نے منظور کی۔ آج (11 جولائی 2019ء) صبح سویرے 93 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔