آج کل حالت کچھ ایسی ہے کہ ہر پاکستانی نے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، معاشرتی ناانصافی تو ضمنی چیزیں بن چکی ہیں، اب تو بم دھماکا، لاقانونیت، دہشت گردانہ کارروائی اور ایسی کئی ناخوشگوار چیزیں ہمیں اپنا عادی بنا چکی ہیں۔ دھماکا ہو، تو مرنے والوں کی تعداد جاننے اور مذمتی ٹیکرز دیکھنے کے بعد چینل تبدیل کردیا جاتا ہے۔ کسی عدالتی ناانصافی کی خبر پڑھنے کو ملے، تو طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اخبار ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور یہ شعر بادل نخواستہ لبوں پر زہرخند کا کام کر جاتا ہے کہ
د ڈیرہ سوختہ پہ خندا شوی حمزہ
دا دویم رنگ دی دہ ژڑا پیجنم
اب تو ہم احتجاج کرتے اور اپنی آواز بلند کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ ہماری ہمت جواب دے چکی ہے۔ ہمارے غم و غصے کی نوعیت تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اب ہمیں کرکٹ ٹیم کے میچ ہارنے پر غصہ آتا ہے۔ ماتحت ملازمین اور بیوی بچوں پر غصہ آتا ہے۔ہم انٹرنیٹ کی سپیڈ یا کیبل کی خرابی پر غصہ کرنے لگے ہیں۔ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔ کیونکہ ہم کئی ناخوشگوار چیزوں کے عادی جو ہوچکے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ہم مایوسی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ’’آخر انسان ہوں‘‘ کے مصداق بعض واقعات صبر کی ہر حد پار کر دیتے ہیں۔ برداشت اور مایوسی کا دامن تھامے خبریں پڑھتے پڑھتے ایک آدھ خبر ایسی بھی ملتی ہے جس پر اچھا خاصا صبر و استقامت والا انسان حواس کھو بیٹھتا ہے اور اپنی ساری بھڑاس نکال دیتا ہے۔
آٹھ جون دو ہزار گیارہ کی بات ہے۔ کراچی کے بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز کے ایک اہلکار نے ساتھی اہلکاروں کی موجودگی میں میٹرک کے طالب علم سرفراز شاہ نامی نہتے نوجوان پر فائرنگ کی۔ نجی ٹی وی کے ایک کیمرہ مین نے اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی۔ نوجوان خون سے لت پت تڑپتا رہا، درد سے کراہتے ہوئے کہتا رہا:’’ہائے میرا ہاتھ گیا۔‘‘ سب تماشا دیکھتے رہے۔ یوں نوجوان نے فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دی۔ اس واقعہ کے ردعمل میں کئی حلقوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیا۔ رینجرز اہلکاران کو سزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ عدالت نے اہلکاروں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ سرفراز کے خاندان نے اہلکاروں کو معاف کیا، لیکن عدالت نے معافی نامے کو مسترد کرتے ہوئے تمام اہلکاروں کی سزائیں برقرار رکھیں۔ یوں کسی مجبوری کے تحت معافی نامے پر راضی ہونے والا خاندان کم از کم سکون کی نیند سونے لگا۔
لیکن اب سننے میں آیا ہے کہ صدرِ پاکستان نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت ایک والد ہوتے ہوئے بھی’’ملکی بقا‘‘ کی خاطر ایک بوڑھی ماں کے سہارے کے قتل میں ملوث رینجرز اہلکاروں کو "صدارتی معافی” دے دی۔ یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی کئی ایک ایسے واقعات ہمارا منھ چڑاتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک قیدی کی موت کے بعد عدالت نے اسے بے گناہ قرار دیا تھا۔ کتنے بے گناہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہمارے عدالتی نظام اور نظامِ انصاف کا رونا رو رہے ہیں۔ کس طرح حوا کی بیٹی کی عزت لوٹنے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔ بچوں سے ماں باپ کا سایہ چھیننے والے آزادی کے مزے لے رہے ہیں۔ والدین کو نوجوان اولاد کے سہارے سے محروم کرنے والے شاہ رخ جتوئی کی صورت اس سسٹم کا مذاق اڑا رہی ہے۔ اس ایک خبر نے میرا چپ کا روزہ توڑ دیا۔ یہ محض ایک معافی نہیں ہے، ہمارے ہاں مروجہ دوہرے معیار کی عکاسی ہے۔ وہ دہرا معیار جس نے ہماری ہمت اور حوصلے کا قتل کر دیا ہے۔ آج کل صاحبِ استطاعت جب ان تمام حالات سے تنگ آجاتا ہے، تو آرام سے کسی دوسرے ملک جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ بیچ میں ہماری طرح "مڈل کلاسیے” رہ جاتے ہیں۔ جو ایک عرصہ خاموشی کے بعد کسی نہ کسی زیادتی پر بلبلا اٹھتے ہیں اور اپنا حق مانگنے لگ جاتے ہیں۔ کسی زیادتی یا برائی پر احتجاج کرتے یا اپنا حق مانگتے ہوئے آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ کچھ بولنے سے پہلے، اپنا حق مانگنے سے پہلے یہ بھی سوچو کہ تم نے ریاست کو دیا کیا ہے؟
اس سوال کا جواب میں دیتا ہوں۔ سرفراز شاہ کی ماں نے اپنا بیٹا دیا۔ سوات، وزیرستان اور فاٹا کے لوگوں نے اپنا گھر بار، مستقبل، بچوں، عورتوں اور بڑے بوڑھوں کی قربانی دی۔ بلوچوں نے لاپتا افراد کا ’’تحفہ‘‘ دیا۔ بم دھماکوں میں جاں بحق افراد نے اپنے پیاروں کا خون دیا۔ اے پی ایس میں پڑھنے والے نونہالوں نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی۔ لاکھوں لوگوں نے اپنا ماضی، حال اور مستقبل دیا۔ آباؤ اجداد کی قربانیوں کی کہانیاں ایک الگ داستان ہیں۔
یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا یہ سب قربانیاں بخوشی دی گئیں یا ان سے لی گئیں؟ بہرحال، دینے کا یہ سلسلہ روز اوّل سے ہی چلا آ رہا ہے۔
اگر سوال پوچھنے والے کو جواب مل گیا ہو، تو لاؤ میرا حق!
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔