فروری 2021ء کو اسلام آباد جی الیون کے اشارے پر کشمالہ طارق کے صاحب زادے کی تیز رفتار لیکسس نے سگنل توڑ کر مہران میں سوار چار غریب نوجوانوں کی زندگی کا چراغ اس بے رحمی سے گل کیا کہ لمحوں میں چار گھر اجڑ گئے۔ گاڑی کے سامنے پڑی لاش نے فرار کا راستہ تو روک لیا، مگر انصاف کا راستہ نہ روک سکی۔ کیوں کہ ایف آئی آر میں ڈرائیور نے بیان دیا کہ گاڑی ازلان چلا رہا تھا، جب کہ اگلے دن کشمالہ طارق نے ویڈیو بیان میں کَہ دیا کہ گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ وہی ڈرائیور جو ہمیشہ کی طرح اشرافیہ کے بچوں کے گناہوں کا بوجھ اُٹھانے پر مجبور ہوتا ہے۔
وعدہ ہوا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جائے گی، مگر وہ فوٹیج کبھی منظر عام پر نہ آئی۔ پھر چند ہی ہفتوں میں مقتولین کے ورثا نے ڈرائیور کو معاف کر دیا۔
وہی معافی جو پاکستان میں غریب کے خون کی آخری قیمت بن چکی ہے…… اور یہ وہی فارمولا ہے، جو کراچی میں گل احمد کی بہو، نتاشہ اقبال، کے کیس میں بھی دہرایا گیا…… جب اُس نے نشے میں دھت ہوکر موٹر سائیکل پر سوار باپ اور بیٹی کو کچلا۔ پھر فرار کی کوشش میں مزید لوگوں پر گاڑی چڑھائی اور گرفتار ہونے کے بعد چند گھنٹوں میں اُسے نفسیاتی مریض ڈکلیئر کرکے تھانے سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ کیوں کہ وہ جگت سیٹھ کی بہو تھی۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملک بھر کی سڑکیں ایسے قتل شدہ لوگوں کے خون سے سرخ ہیں، جنھیں طاقت ور طبقے کی گاڑیوں نے کچلا اور پھر پیسے، اثر و رسوخ، صلح ناموں اور فرضی ڈرائیوروں نے ہر کیس کو دفنا دیا۔ لاہور ڈیفنس کے ٹریفک وارڈن کا قتل ہو، یا گلبرگ میں تیز رفتار لینڈ کروزر کے ہاتھوں مارے جانے والے نوجوان ہوں۔ کراچی کا شاہ حسین کیس ہو، یا مری میں جیپ کے نیچے آنے والے غریب مزدور…… سب کا انجام ایک سا ہے، یعنی چند دن کی میڈیا ہلچل، تھوڑا سا شور، پھر طاقت ور کا اثر، پھر کم زور خاندان کی مجبوری، پھر خاموشی، پھر عدالت میں مسکرا کر ہونے والا راضی نامہ اور کیس ہمیشہ کے لیے بند۔
ٹھیک یہی انجام اسامہ ستی کے کیس کا ہوا، جہاں ایک بااثر گھرانے کے لڑکے نے پولیس کی وردی پہن کر نوجوان کو گولیوں سے بھون ڈالا، مگر وقت نے انصاف کو لٹکا کر ایسے دفن کیا کہ پورا ملک دیکھتا رہ گیا۔ اسی طرح کل پرسوں لائے گئے جج کے صاحب زادے کا کیس بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیوں کہ یہاں قانون کم زور نہیں، بل کہ یہ صرف طاقت ور کے سامنے ہی کم زور ہے۔
دراصل اشرافیہ کے بچوں کی آنکھوں میں بے خوفی کی وجہ صرف دولت نہیں، وہ جانتے ہیں کہ اُن کی غلطی کو حادثہ، جرم کو غلطی، قتل کو کوتاہی اور نشے کو ذہنی بیماری بنا کر پیش کر دیا جائے گا۔ اس معاشرے میں غریب کا بچہ ٹکر سے مرے، تو حادثہ کہلاتا ہے اور امیر کا بچہ معمولی چوٹ کھائے، تو پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہی طبقاتی تقسیم، یہی گروہی طاقت، یہی معاشرتی دوغلا پن پاکستان میں انصاف کو سڑک کے کنارے پڑی کسی لاش کی طرح بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں ڈرائیور قربانی کا بکرا بنتا ہے، رپورٹس بدلی جاتی ہیں، گواہ غائب ہوتے ہیں، عدالتی تاریخیں ٹلتی رہتی ہیں اور آخرِکار ایک کم زور خاندان کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ یا تو صلح کرے، یا باقی بچوں کے لیے خاموش ہو جائے۔
سوال یہ ہے کہ کب تک طاقت ور اپنی اولادوں کے گناہوں کو دولت کے پردوں میں چھپاتے رہیں گے، کب تک غریب کی زندگی کی قیمت چند لاکھ روپے ہوگی، کب تک قتل حادثہ کہلا کر دفن ہوگا، کب تک ایک ماں کی چیخ پر پیسے کی چادر ڈال دی جائے گی، کب تک یہ نظام مظلوم کے لہو سے ہاتھ دھوتا رہے گا، کب تک متاثرین میں کوئی ایسا سر پھرا پیدا نہیں ہوگا، جو اس جمی ہوئی برف کو اپنی حرارت سے پگھلا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ سانحات حادثات نہیں رہے، یہ اجتماعی قتل ہیں، جو پورے ریاستی ڈھانچے کی شراکت سے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے ہی فساد کی جڑ ہیں، جو طاقت ور کے حق میں اور کم زور کے خلاف ہوتے ہیں۔ جب تک قانون ایسا نہیں بنے گا، جو اشرافیہ کے بچوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے ، جب تک پیسا، رتبہ، خاندان اور اثر و رسوخ انصاف کے راستے کی دیوار ہیں، تب تک یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ لہٰذا اس ملک کو تبدیلی کی نہیں انصاف کی ضرورت ہے…… اور انصاف تب تک نہیں آئے گا، جب تک کوئی سر پھرا اس بوسیدہ نظام کے سینے پر پہلا پتھر نہیں مارتا اور اعلان نہیں کرتا کہ اب غریب کے خون کی قیمت وہی ہوگی، جو طاقت ور کے خون کی ہے۔ اب حادثہ، حادثہ نہیں، بل کہ جرم کہلائے گا اور جرم کا فیصلہ قانون کرے گا، دولت نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










