پچھلے روز ایک ویڈیو نظر نواز ہوئی، جو گذشتہ دو ہفتوں سے جاری دوبیر کوہستان کے عوام کے دھرنے کی ہے۔ دراصل دھرنا اُن وعدوں کی تکمیل کے لیے دیا جا رہا ہے، جو منصوبے کی تعمیر کے دوران میں کیے گئے تھے۔
کئی دہائیوں سے پاکستان میں ہائیڈرو پاؤر منصوبوں کو ’’ترقی کے انجن‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ حکام کی جانب سے صاف توانائی، معاشی بہتری، مقامی روزگار اور پہاڑی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں…… مگر سوات، کوہستان اور شمالی پاکستان کے دیگر اضلاع کے لوگوں کے حقیقی تجربات ایک بالکل مختلف کہانی سناتے ہیں۔ یہ فریب، محرومی اور مقامی وسائل کے بے دریغ استحصال کی کہانی ہے، جس کے بدلے انھیں کوئی فائدہ نہیں ملتا۔
سوات کے درال ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (36 میگاواٹ)، تکمیل 2018ء، میں PEDO/SHYDO کے تحت تعمیر شدہ اور کوہستان کا دوبیر خوڑ ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ (130 میگا واٹ) تکمیل 2014ء میں WAPDA کے ذریعے اس دھوکا دہی کی واضح مثالیں ہیں کہ کس طرح ریاستی ادارے اور متعلقہ ایجنسیاں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور مقامی قوموں کو معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی طور پر پہلے سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔
جب سوات میں درال ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کا اعلان ہوا، تو سرکاری حکام اور PEDO نے مقامی لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ یہ منصوبہ روزگار فراہم کرے گا، ترقیاتی اسکیمیں لائے گا، سڑکیں بنیں گی اور مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ بالکل یہی وعدے کوہستان میں دوبیر پراجیکٹ کے دوران میں بھی کیے گئے تھے…… مگر ذکر شدہ دونوں جگہیں اس بات کی گواہ ہیں کہ حکام نے انتہائی بنیادی وعدے بھی پورے نہیں کیے۔
کوہستان میں دوبیر پراجیکٹ اپنے پیچھے ایک طویل فہرست چھوڑ گیا: زمین کا نامناسب اور بے انصافی پر مبنیمعاوضہ، مقامی لوگوں کو روزگار نہ ملنا، جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی، پانی کے چینلوں تک رسائی میں رکاوٹ اور سڑکوں کی تعمیر جیسے وعدے ایفا نہ ہوسکے۔ ترقی کے بہ جائے کوہستانی خاندانوں کو عسکری نگرانی، دباو اور اپنی آبائی زمینوں پر ریاستی کنٹرول بڑھتا ہوا نظر آیا۔ یہی نمونہ بعد میں سوات اور اَپر دیر میں بھی دیکھنے کو ملا۔
درال ویلی کے لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ تعمیراتی کام ماحولیاتی اُصولوں کے مطابق ہوگا۔ زمین صرف مقامی رضامندی سے حاصل کی جائے گی۔ سیاحت، ماحولیات اور ثقافتی ورثہ محفوظ رکھا جائے گا اور درال دریا کے ساتھ ساتھ جنگلات کی شجرکاری، ایک کالج، ایک اسپتال، متعدد سیاحتی مقامات اور واٹر سپلائی اسکیمیں تعمیر کی جائیں گی۔ مقامی لوگوں کو روزگار میں ترجیح دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا…… مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ مشاورت ہوئی، نہ اُصولوں کی پابندی ہی کی گئی۔ درخت خفیہ طور پر کاٹنے کے لیے نشان زد کیے گئے اور مذاکرات دور دراز کے سرکاری دفاتر میں کیے گئے، مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر۔ جو چیز صاف توانائی کے نام پر بیچی گئی تھی، وہ خوف، بداعتمادی اور سماجی تنازع کا سبب بن گئی۔
٭ فریب کا طریقۂ کار:۔ پہاڑی علاقوں میں عوام کو دھوکا دینے کا طریقہ ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے:
1) ابتدائی بڑھ چڑھ کر وعدے کرنے کا مرحلہ:۔ مقامی لیڈر، بیوروکریٹس اور ٹھیکے دار رائلٹی، نوکریاں، اسکول، بجلی کے کم نرخ اور ماحول دوست اقدامات کے خوش کن وعدے کرتے ہیں۔
2) رضا مندی کے عمل میں ہیرا پھیری:۔ ایسی میٹنگیں رکھی جاتی ہیں، جن کے فیصلے پہلے سے طے ہوتے ہیں۔ اختلاف کرنے والی آوازوں کو نکال دیا جاتا ہے۔ FPIC یعنی آزاد، پیشگی اور باخبر رضامندی کو دھونس اور ادھوری معلومات سے بدل دیا جاتا ہے۔
3) بااثر افراد کی خریداری:۔ کچھ ملک، سردار، یا سیاسی طور پر طاقت ور افراد کو ذاتی مفادات دے کر اپنے ساتھ ملایا جاتا ہے، جب کہ پوری برادری کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے۔
4) انتظامی دھمکی اور دباو:۔ میٹنگیں، اے سی دفاتر میں کروائی جاتی ہیں، جہاں بیوروکریسی عوامی مشاورت کے بہ جائے دباو ڈالنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ نرمی سے دی گئی دھمکیاں، انتقامی رویے اور سماجی تقسیم اس عمل کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔
5) ماحولیاتی اور سماجی تباہی:۔ جنگلات کٹتے ہیں، دریا کا بہاو تبدیل ہوتا ہے، زرخیز زمین ڈمپنگ سائٹس بن جاتی ہے، چراگاہیں ختم ہوجاتی ہیں اور حیاتیاتی تنوع تباہ ہوجاتا ہے۔
6) تعمیر کے بعد مکمل عدم دل چسپی:۔ منصوبہ مکمل ہوتے ہی حکام غائب ہوجاتے ہیں۔ واپڈا، پیڈو یا عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی ویب سائٹس سے متعلقہ دستاویزات بھی غائب کر دی جاتی ہیں۔ عوامی شکایات نظر انداز کردی جاتی ہیں، رائلٹی کی ادائی معطل رہتی ہے اور ماحول کی بہ حالی کبھی نہیں ہوتی۔
٭ وسائل کا استحصال، عوام کی نظراندازی:۔ شمالی پاکستان میں اپنایا گیا ہائیڈرو پاؤر ماڈل ترقیاتی کے بہ جائے سراسر استحصالی ہے۔ یہاں دریا، جنگلات، زمینیں اور مقامی لوگوں کی محنت سب کچھ قومی مفاد کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس کا بوجھ صرف مقامی لوگ برداشت کرتے ہیں جو کہ ماحولیاتی تباہی، بے دخلی اور ثقافتی بگاڑ کی صورت میں ہوتا ہے۔ ریاست کا ’’قومی مفاد کا بیانیہ‘‘ ہر جگہ مقامی حقوق کو روند دیتا ہے۔ کوہستان میں پوری وادیاں دوبیر اور دیگر منصوبوں کی نذر ہوچکی ہیں۔ سوات میں، عسکریت پسندی اور بے گھر ہونے کے زخموں کے بعد لوگ درال اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کو ایک اور حملہ سمجھتے ہیں اور یہ حملہ ’’ترقی‘‘ اور ’’مبہم قومی مفاد‘‘ کے نام پر کیا جاتا ہے۔
٭ فائدہ کس کو ملتا ہے؟:۔ دراصل فائدے مقامی لوگوں تک نہیں پہنچتے، بل کہ باہر جاتے ہیں۔ جیسے کہ
1) بجلی قومی گرڈ میں جاتی ہے، مقامی گھر محروم رہتے ہیں۔
2) رائلٹی یا تو دی ہی نہیں جاتی یا اس کا تعین نہیں ہوتا۔
3) روزگار، ٹھیکے دار اور بیرونی لوگوں کو دیا جاتا ہے، مقامی افراد کو نہیں۔
4) فائدہ صرف کنسلٹنٹ، سرکاری اہل کار اور نجی کمپنیوں کو ملتا ہے…… جب کہ وہ لوگ جن کے دریا اور زمینیں ان منصوبوں کو ممکن بناتی ہیں، وہ سب سے زیادہ محروم رہ جاتے ہیں۔
٭ کیا کیا جائے؟:۔ اگر ہائیڈرو پاؤر کی شکل میں واقعی پاکستان کی خدمت کرنی ہے، تو اسے کھوکھلے وعدوں کی بنیاد پر تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ
1) FPIC کو حقیقی معنوں میں لاگو کیا جائے۔
2) ماحول اور سماج کے اثرات کی آزادانہ نگرانی کی جائے۔
3) منصفانہ معاوضہ اور رائلٹی کا نظام وضع کیا جائے۔
4) مقامی لوگوں کو نوکریوں میں ترجیح دی جائے۔
5) واپڈا ، پیڈو اور ٹھیکے داروں کو ان کی خلاف ورزیوں کی پاداش میں قانونی طور پر جواب دہ بنایا جائے۔
6) سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں کو نگرانی میں شامل کیا جائے۔
7) اس زمین کے باسیوں کو باقاعدہ آبائی قرار دیا جائے اور پھر اُن اُصولوں کو اپنایا جائے، جن کو عالمی اداروں نے آبائی لوگوں کے لیے مختص کیے ہیں۔
8) چھوٹے پن بجلی گھر بنائے جائیں۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، پاکستان کے ہائیڈرو پاؤر منصوبے ترقی کی علامت نہیں، بل کہ استحصالی ترقی کی مثال ہی رہیں گے، جہاں پہاڑ سب کچھ دے دیتے ہیں اور بدلے میں کچھ نہیں پاتے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










