مشہور لکھاری عزیز بن عزیز بشیر بھائی نے آج سے تین برس قبل ایک جملہ کہا تھا، ایک ایسا جملہ جو شاید اُس وقت بہتوں کو مبالغہ لگا ہو، مگر وقت نے اُسے حرفِ آخر ثابت کر دیا۔ دراصل انھوں نے کہا تھا: ’’سسٹم جب بجانے پر آتا ہے، پھر بجا کر ہی چھوڑتا ہے …… اور سسٹم پی ٹی آئی کو بجا کر ہی چھوڑے گا۔‘‘
آج حالات اُسی پیش گوئی کی سچائی پر مہر لگا رہے ہیں۔ کیوں کہ جب فوج نے اپنے ہی فیض حمید کو نہ بخشا اور اُسے 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی، تو سوال اپنی تمام تر سختی کے ساتھ سامنے کھڑا ہے: ’’پھر 804 اور اُس کے ہم نواؤں کا انجام کیا ہونے جا رہا ہے؟‘‘ یہ محض طنز نہیں، آنے والے وقت کا دھندلکا ہے۔
فیض حمیدکیس کا خلاصہ…… لیکن پوری سیاست اس میں قید ہے۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 12 اگست 2024ء سے شروع ہوئی، جو پورے 15 ماہ تک جاری رہی۔ تحقیقات کے بعد اُن پر لگنے والے چار بڑے الزامات ثابت ہوئے، یعنی:
1) سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت اور شمولیت۔
2) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی۔
3) اختیارات اور ریاستی وسائل کا غلط استعمال۔
4) متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا۔
تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ ملزم کو اپنی مرضی کی وکلا ٹیم فراہم کی گئی۔ ہر شق، ہر دستاویز، ہر الزام کا باضابطہ جائزہ لیا گیا…… اور آخرِکار عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ’’ملزم تمام الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025ء سے ہوگا۔‘‘
٭ فیض حمید منظر عام پر آنے کی کہانی:۔ فیض حمید کا نام ایک دم نہیں اُبھرا۔ یہ پہلا صفحہ نہیں، بل کہ ایک لمبی کتاب ہے۔2017ء کا فیض آباد دھرناجس کے معاہدے کے آخر میں ’’بہ وساطت میجر جنرل فیض حمید‘‘ تحریر تھا۔ 2019ء میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری دو سال سے زائد اس منصب پر رہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ٹی ایل پی معاہدے اور سیاسی مداخلت پر سخت ایکشن کی سفارش، پی ٹی آئی دورِ حکومت میں مخالفین کی گرفتاریوں، وفاداریاں بدلوانے، بجٹ پاس کروانے اور اسمبلی حاضری پوری کروانے جیسے الزامات، سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بیانات، جو آج پھر حوالہ بن رہے ہیں۔ اس طرح کابل میں کافی پکڑے تصویرجس نے عالمی سطح پر سوالات کو جنم دیا تھا۔ سپریم کورٹ حکم پر ہونے والی ٹاپ سٹی انکوائری، جس میں متعدد خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں۔ یہ سب واقعات محض خبریں نہیں، تاریخ کے صفحات پر لکھے ہوئے شواہد ہیں۔
اصل سوال وہی ہے، جسے سب جانتے ہیں، مگر کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ جب فیض حمید جیسے طاقت ور ترین عہدوں سے جڑے شخص کے خلاف ریاستی مشینری نے 15 ماہ تحقیقات کیں، فوجی عدالت نے سزا سنائی اور ’’سسٹم‘‘ نے کسی لمحے نرمی نہ دکھائی…… تو کیا واقعی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ 804 اور اس کی پوری ٹیم کا راستہ کس طرف جا رہا ہے؟
تاریخ کی آنکھ بہت تیز ہے اور وقت بڑی خاموشی سے بدلے لیتا ہے۔ فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ سسٹم نے کھیل شروع کر دیا ہے …… اور اس بار کھیل یک طرفہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










