معلوم تاریخ کے مطالعے کے بعد ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تک آنے والے زلزلے 8 کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ اس سے زلزلوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جب کہ مالی نقصانات کو اعداد میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
اب زلزلے انسان کے لیے ہمیشہ خطرات اور پریشانیوں کا باعث رہے ہیں اور ہر دور کے انسان نے اس کی وجوہات اور بچاو کے بارے میں اپنی اپنی رائے قائم کی ہے۔ صدیوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے میں عجیب و غریب رائے رکھتے تھے۔ مثلاً: عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہ گار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں۔ بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے ہی زمین کے اندر رہتے ہیں اور زلزلے پیدا کرتے ہیں۔
قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک قوی الجثہ چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔
سائبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمے داری ایک قوی الجثہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو اُن کے بہ قول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لیے جسم کو جھٹکے دیتا ہے، تو زمین لرزنے لگتی ہے۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے، تو زلزلے آتے ہیں۔
قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں، تو زلزلے آتے ہیں۔
اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے، تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔
افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تند و تیز ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔
تقریباً 70 سال پہلے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔
کچھ دوسرے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔
لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘ کا ہے، جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیالوجی اور سیزمالوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔
اب ہر دور کے انسان نے زلزلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی دانست میں کوششیں کیں۔ کہیں وہ گھبرا کر سرِ تسلیم خم کربیٹھا، کہیں قربانی دی، کہیں آہ و بکا اور فریادیں کیں، کہیں اپنے گناہوں کو وجہ مانتے ہوئے خود سے وعدہ کیا کہ بچ گیا تو گناہ نہیں کروں گا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نے آکر انسان کو زلزلے کے خلاف مزاحمتی کاوشوں پر مجبور کیا اور جدید زلزلہ برداشت کرنے کی سکت رکھنے والی عمارات کی تعمیر شروع کروائی۔ جہاں زلزلے کے نقصانات بہت شدید ہوتے ہیں، وہاں زلزلوں کے فوائد زمین اور انسانیت کے لیے بیش بہا ہیں۔ زلزلے زمین کے اندرونی دباؤ (مگما) کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے سائنس دانوں کو زمین کی تہہ (پرت) کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ یعنی زلزلے ایک طرح سے جیالوجی کی بنیاد ہیں۔ اس سے جدید معلومات ملتی ہیں۔ ساتھ ساتھ زمین کے اندر معدنیات، تیل، گیس اور پانی کے ذخائر کا پتا ملتا ہے۔
زلزلوں ہی کی وجہ سے زیرِ زمین معدنیات اور قیمتی ذخائر سطح کے قریب آ سکتے ہیں، جنھیں بعد میں دریافت کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر زلزلے ہی وہ عمل ہیں، جو زمین کے نیچے خزانے اُچھال کر انسان کی دسترس میں لے آتے ہیں۔ تیل اور گیس کے نئے ذخائر زلزلوں کی دین ہوتے ہیں۔ قیمتی معدنیات کی معلومات اور اُن تک رسائی آسان کرنا زلزلوں کا احسان ہوتا ہے۔
بعض اوقات زلزلہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر (ایکویفرز) کو ظاہر کرتا ہے، جس سے پینے کے پانی کا نیا ذریعہ مل سکتا ہے۔ وہ پانی جو بہ ظاہر انسان کی دسترس سے بہت دور ہوتا ہے، زلزلے اُن تک رسائی دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ زلزلوں ہی کی بہ دولت زمین کے اندر محفوظ جو زندگی ہے، وہ زمین پر بسنے والی ہر زندہ چیز کے لیے مزید پانی یا زندگی کی نوید دیتی ہے۔
طویل عرصے میں زلزلے پہاڑوں کی تشکیل، وادیوں کے بننے اور زمین کی سطح میں تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں، جو زمین کی مجموعی ساخت کا حصہ ہیں…… یا یوں کہیں کہ جن وادیوں، پہاڑوں اور چٹانوں کو شاعر خوب صورت کَہ کر شاعری کرتے ہیں، یا جن کی سیاحت دل فریب ہے، یا جو قدرت کی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کہلاتی ہیں، دراصل زمین کی پلیٹوں کی حرکت کے نتائج ہیں۔ یہ پلیٹیں آپس میں کروڑوں سال کی حرکت کے نتیجے میں ٹکراتی ہیں، تو پہاڑوں اور وادیوں کی تشکیل ہوتی ہے۔
یہ زلزلے زمین کی اندرونی توانائی کو خارج کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے اندر دباو کو کم کرتے ہیں۔ زمین آگ اور توانائی کا گولا ہے۔ اس کا اندرونی درجۂ حرارت انتہائی گرم ہوتا ہے، جہاں توانائی خود اس کرہ کو تباہ کرسکتی ہے۔ زلزلوں کی آمد سے یہ اندرونی توانائی خارج ہوتی ہے اور زمین اپنے وجود کو قائم رکھ سکنے کی صلاحیت پیدا کر لیتی ہے۔
(نوٹ:۔ اس مضمون کو ترتیب دینے کے لیے وکی پیڈیا پر موجود بیش تر سائنسی مضامین اور جیولوجیکل سرویزسے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










