گندھارا کی روداد

Blogger Doctor Rafi Ullah Swat

جنوبی ایشیا کے تاریخی طور پر مشہور ثقافتی خطوں میں سے ایک خطہ گندھارا کے نام سے مشہور ہے۔ گندھارا بہ یک وقت ایک ایسی متنوع شناخت کو جنم دیتا ہے، جو جغرافیائی، تاریخی، فنی اور مذہبی پہلوؤں پر محیط ہے۔ یہ تمام پہلو مل کر ایک ایسی دل چسپ داستان کی غمازی کرتے ہیں، جس نے عالمی علمی اور ثقافتی حلقوں میں ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔
٭ جغرافیہ اور فنون:۔ گندھارا کا ثقافتی دائرہ ڈیورنڈ لائن، جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے، کے دونوں اطراف میں پھیلا ہوا ہے۔ تاریخ دور کے لحاظ سے گندھارا بالعموم پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے لمبے عرصے پر محیط ہے، اگرچہ اس بارے میں کچھ اور آرا بھی پائی جاتی ہیں۔ گندھارا کی مغربی حد افغانستان کے مشرقی علاقوں تک جاتی ہے، جہاں بامیان جیسے تاریخی مقامات شامل ہیں، جب کہ ٹیکسلا اس کی مشرقی سرحد ہے۔ تاریخی اور ثقافتی عملیات کے حوالے سے اس کا دائرۂ اثر حیرت انگیز طور پر وسیع تھا، جو بحیرۂ روم سے لے کر پاکستان اور شمالی ہندوستان تک پھیلا ہوا تھا۔
عام تصور میں گندھارا اس کے اسی نام کے فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی کے لیے مشہور ہے، جو انتہائی ہائیبرڈ اور کاسموپولیٹن نوعیت کا حامل تھا۔ اس میں مشرق کے روحانی اور مغرب کے فنی تصورات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ علمی لحاظ سے اس بات پر اختلاف ہے کہ گندھارا کی مجسمہ سازی کی روایت پر یونانی اثرات زیادہ تھے یا رومی؟
اس فن کا بنیادی موضوع گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات اور بدھ مت اور دیوتاؤں کی ’’ری پریزینٹیشن‘‘ (Representation) ہے۔
گندھارا کی بدھ مت کی عمارتیں خصوصاً سٹوپے اور خانقاہیں تاریخی، جمالیاتی اور مذہبی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ ٹیکسلا، سوات اور پشاور وادی میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ گندھارا کی شہری تہذیب کے آثار، جو پاکستان کے ٹیکسلا، چارسدہ، سوات اور افغانستان میں ملتے ہیں، علما و فضلا کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔
بدھ مت کے ساتھ ساتھ اُس وقت دیگر مذاہب اور عقائد بھی موجود تھے، جس کا ثبوت حالیہ تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ ان تحقیقات کی کہانی ایڈونچر ، علمی دل چسپیوں اور سیاسی و معاشی محرکات سے بھرپور ہے ۔
٭ گندھارا کی مغربی دریافت:۔ جب برطانوی، ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں پہنچ گئے، تو نہ صرف گندھارا کا نام، بل کہ اس کا پورا قصہ مقامی یادداشت سے محو ہوچکا تھا۔ اس کے عظیم مراکز اور مذہبی و ثقافتی منظرنامے کے بارے میں کوئی جانکاری موجود نہیں تھی ۔ گندھارا کے آثار کی تلاش اور دریافت ہندوستان کی تاریخ اور جنوبی ایشیائی آثارِ قدیمہ کی زمرے میں ایک اہم باب تصور کی جاتی ہے۔
1830ء کی دہائی ہی سے شمال مغربی ہندوستان اور افغانستان سے بہت سے سکے اور بدھائی سٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہوئیں۔ چارلس میسن، الیگزینڈر برنز، الیگزینڈر کننگھم، اور بعد ازاں جان مارشل اور اوریل اسٹائن ، اس تاریخی دریافت کی داستان میں اہم نام ہیں۔
گندھارا پر منظم تحقیق کا دور سر الیگزینڈر کننگھم، جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے (1861ء تا 1885ء)، کے ساتھ شروع ہوا تھا اور یہ سلسلہ سر جان مارشل کے ڈائریکٹرجنرل شپ (1902ء تا 1928ء) میں عروج پر پہنچا۔ ٹیکسلا آج بھی اُن کا نام یاد دلاتا ہے۔ تقریباً تمام بدھسٹ کمپلیکسز جیسے دھرم راجیکا اور جولیاں، اور ٹیکسلا کے تین تاریخی شہر بھیرماؤنڈ ، سِرکپ اور سِرسُکھ، انھی نے کھود کر منظرِعام پر لائے تھے۔
مارشل کے دور میں خیبر پختونخوا اور ملحقہ علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر تحقیق کی گئی۔ 1947ء کے بعد پاکستان میں گندھارا پر تحقیق زیادہ تر غیر ملکی مشنز نے کی، جب کہ ملکی اداروں کی کارکردگی بہت محدود رہی۔
٭ آثارِ قدیمہ کا مینجمنٹ:۔ آثارِ قدیمہ کا انتظامی اور قانونی پہلو دنیا بھر میں اہم سمجھا جاتا ہے، اور پاکستان میں تو یہ خاص اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ آثارِ قدیمہ ایک نایاب ورثے کی حیثیت سے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں…… لیکن یہ اور آج کے ڈیولپمنٹل کام ، خزانے کی تلاش کی ذہنیت اور سیاسی و سماجی تنازعات کی وجہ سے ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں۔
19ویں صدی سے لے کر ابھی تک جنوبی ایشیا کے آثار کو لاحق سنگین خطرات کے پیشِ نظر بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں اور اس میں ’’اینشینٹ مونیومنٹس پریزرویشن ایکٹ، 1904ء‘‘ کی اہمیت مسلم ہے۔ اُصولی طور پر یہ قانون آرکیالوجیکل کھدائی اور نوادرات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اہم تھا، اگرچہ عملی طور اس سے روگردانیاں بھی ہوتی رہیں۔
1930ء اور 1940ء کی دہائی میں اس قانون میں ترمیم کرکے غیر ملکی تحقیقاتی ٹیموں اور ہندوستانی یونیورسٹیوں کو کھدائی اور تحقیق کی اجازت دی گئی۔ تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے وہی قانونی ڈھانچا اپنایا، جس میں وقتاًفوقتاً تبدیلیاں کی گئیں۔
پاکستان میں آثارِ قدیمہ کے تحفظ کے ادارے موجود ہیں، مگر سب سے بڑی کمی عوام کے اپنے ورثے سے رشتے کی ہے، جو کہ پوسٹ کلونیل ممالک کے لیے نہایت اہم ہے۔ خصوصاً گندھارا کے ورثے کی حفاظت میں مقامی لوگوں کی شمولیت بہت ضروری ہے۔
اس کے لیے آرکیالوجی کے پرانے طریقۂ کار اور ادارہ جاتی گرفت کے بہ جائے ایک سماجیاتی زاویہ اپنانے اور عوام کو آرکیالوجی کے کام میں شرکت کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مقامی لوگ پالیسی سازی اور فیصلوں میں شامل ہوسکیں۔
اگرچہ صورتِ حال اب تک مثالی نہیں، لیکن مناسب تبدیلیوں کے ذریعے تمام متعلقہ فریقین اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے