کردار کا زوال

Blogger Hilal Danish

گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ایسا سین چلا کہ چند لمحوں کے لیے لگا شاید کوئی گیم شو چل رہا ہے۔ بس حکمتِ عملی کی جگہ سب نے ’’میرے ہیں، میرے ہیں!‘‘ کا بٹن دبا دیا۔
در اصل ہوا کچھ یوں کہ اسپیکر نے اسمبلی میں چند نوٹ لہرا کر پوچھا: ’’بھائیو! یہ کس کے پیسے ہیں؟‘‘یہ پوچھنا تھا کہ منظر ایسا بنا، جیسے بلا معاوضہ کھانا بانٹا جا رہا ہو۔ ٹھیک 12 ایم این اے سینہ تان کر اور ہاتھ اُٹھا کر کھڑے ہوگئے!
اُس موقع پر ایسا لگ رہا تھا، جیسے سب کو یقین ہو کہ شاید اُن نوٹوں کے ساتھ پارلیمانی کارکردگی کا سرٹیفکیٹ بھی مل جائے گا۔ کیا یہ وہی لوگ ہیں، جنھیں ہم نے ملک سنبھالنے، بجٹ بنانے، پالیسی طے کرنے اور قوم کا مستقبل لکھنے کے لیے بھیجا تھا…… چند ہزار روپے (جو گرے تھے) کوئی نہیں چھوڑ رہا، تو قومی خزانہ تو بہت بڑا پیکج ہے، بھائی……!
قومی اسمبلی کے اندر کے اس منظر نے واضح کر دیا کہ ہمارے نمایندے کسی قانون پر ہاتھ کھڑا کریں یا نہ کریں، لیکن گرے ہوئے نوٹوں کے لیے ہاتھ فوراً کھڑا کردیتے ہیں۔ ایوان کے فرش پر گرے ہوئے پیسے اصل میں اراکین کی گری ہوئی شخصیت کا ثبوت بن گئے۔
چند نوٹوں سے اتنی محبت…… یعنی قوم کے ووٹ سے بھی زیادہ……! اگر نوٹوں کے لیے اتنی عقیدت ہے، تو بجٹ کی کتابیں یقینا اُن کے لیے کسی ’’ہمالیہ‘‘ سے کم نہیں ہوں گی۔
یہ سب کچھ دیکھ کر دل نے کہا کہ یہ 24 کروڑ عوام کے نمایندے نہیں لگتے، بل کہ گرے ہوئے نوٹوں کے برادرانِ یتیم زیادہ لگتے ہیں۔
ایوان بھی سوچ رہا ہوگا کہ مَیں نے ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو قانون نہیں سمجھتے، بحث نہیں کرسکتے، آئین نہیں پڑھتے …… لیکن گرے ہوئے پیسوں کو فوراً پہچان لیتے ہیں!‘‘
مذکورہ ویڈیو نے قوم کو ایک زبردست پیغام دے دیا ہے کہ یہ چند ہزار روپے نہیں تھے …… یہ کردار، ترجیحات اور نیت کا میٹر تھے، جو تیزی سے ’’نیچے‘‘ گر کر ٹوٹ گیا۔
قارئین، بس ایک بات یاد رکھیں کہ نوٹ گرتے ہیں، تو اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن کردار گر جائے، تو پھر کوئی ایوان، کوئی اسپیکر اور کوئی ووٹ اسے واپس نہیں اُٹھا سکتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے