دسمبر کا مہینا چل پڑا ہے۔ پت جھڑ کا موسم اپنی جوبن پر ہے۔ صحت جس کی ایسی ہو کہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے دور رہے، ساتھ میں دو وقت کا کھانا میسر ہو، تو ہر فطرت شناس شخص پر یہ موسم ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ سیانے اس موسم کو ’’شاعروں کا موسم‘‘ کہتے ہیں۔ رومانیت سے کون صاحبِ عقل انکاری ہوسکتا ہے؟
یہ الگ بات ہے کہ چار دہائیوں سے ہمارے سماج کی جس نصاب کے ساتھ ذہنی آب یاری کی گئی ہے، اُس میں رومان کو ’’گناہ‘‘ تصور کیا جارہا ہے۔ مقامی ثقافت کو تہہ و بالا کرکے بدیسی رسم و رواج کو دین بنایا گیا ہے۔ اس کا اصل مقصد تو پڑوسی ملک میں عسکری مہمات میں کام یابی کا حصول تھا، جس کے لیے مغربی اور خلیجی ممالک سے پیسوں کی فراوانی یقینی بنائی گئی تھی…… ظلم مگر یہ ہوا کہ مقامی ثقافت کو ناپسندیدہ ٹھہرایا گیا۔ صرف یہی نہیں، بل کہ مجموعی طور پر معاشرے میں ذہنی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ سب سے بڑا اثر اس کا یہ ہوا کہ ہر مسلک، فقہ، فرقہ اور پیشے میں سخت گیر لوگ پیدا ہوئے۔ نہ صرف پیدا ہوئے، بل کہ حیرت انگیز طور پر اُن لوگوں کو توجہ بھی حاصل ہوئی اور یوں سماج میں ہر حوالے سے انتہاؤں کا اظہار دکھائی دینیلگا۔ جس کا نتیجہ کبھی کبھار پُرتشدد بھی نکلتا رہا…… اور اب بھی یہی صورتِ حال درپیش ہے۔
فریقین میں جو صاحبانِ عقل و فہم ہیں، جو حکمت اور معقولیت کو سمجھتے ہیں، اُن کو منصوبہ بندی کے تحت کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر ہی کے اس مہینے میں جہاں ایک طرف موسم بھی سرد ہے اور رومان و شاعری کے احساسات بھی موج زن رہتے ہیں، وہیں دوسری طرف مختلف معاملات میں انتہاؤں کا بھی کھل کر اظہار ہورہا ہے۔
کہیں پر کسی کو ثقافتی عمل ’’اتنڑ‘‘ کا ہونا برا لگ رہا ہے، تو کسی کو اتنڑ پر تنقید کرنے والے متشدد نظر آرہے ہیں۔ حالاں کہ اتنڑ اگر سماجی حدود و قیود کے اندر ہو، تو اس سے اعضا کی خوب صورت شاعری اور کیا ہوسکتی ہے؟ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ یہاں شاعری ہی کو واہیات قرار دیا جارہا ہے، تو ایسے میں اعضا کی شاعری کیوں کر برداشت ہوسکتی ہے؟
لیکن خیر……! اتنے سال گزرنے کے باوجود لوگ اب جان چکے ہیں کہ پرائے معاملات میں بدیسی کرنسی (ڈالر) کی بہ دولت جو ہماری ثقافت، سماج اور نصاب سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی، اُس کے اثرات جلدی ختم نہیں ہوسکتے۔ اس لیے تنقیدی طبقے کو حق ہے کہ تنقید جاری رکھے…… اور حامیوں کو حق ہے کہ اتنڑ کو دوام بخشتے جائیں۔
کیوں کہ اُمید یہی ہے کہ وہ وقت قریب ہے، جب بدیسی کرنسی کی خاطر ’’سماجی پابندیوں‘‘ کا بُنا ہوا جال ایک طرح سے مکڑی کا جال ثابت ہوگا اور خدا کے پیدا کردہ آزاد انسان کو آزادی سے سانس لینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ کوئی اتنڑ کرے گا، تو اُس کو آزادی ہوگی، اور اگر کوئی اس کے مخالف کوئی عمل کرے گا، تو بھی اسے آزادی حاصل ہوگی…… مگر دونوں وقت کے تھپیڑوں سے یہ سیکھ چکے ہوں گے کہ ایک دوسرے سے لڑنے کے بہ جائے مکالمے اور برداشت سے مسائل حل کیے جائیں گے۔
70 سالوں کا تجربہ کوئی کم تجربہ نہیں ہوتا۔ ہر بار کوئی اپنے ہاتھوں سے ایک دیوتا تراشتا ہے۔ اُسے لاکھوں ہم وطنوں کا مسیحا ثابت کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے اور جب انسانی ہاتھ کے تراشے گئے اُس دیوتا کو یقین ہوجاتا ہے کہ ’’مَیں تو واقعی کوئی توپ چیز ہوں!‘‘ تو اُس کو ’’غدار‘‘ قرار دے کر ثریا سے زمین پر گرا دیا جاتا ہے۔اور یہ یقین بھی کیا جاتا ہے کہ جس جنتا کو ایک تراشے گئے بت کو دیوتا ماننے پر مجبور کیا گیا تھا، وہی جنتا، دیوتا کو زمین پر پٹخے بھی…… سبحان اللہ!
دسمبر کی اس کڑاکے کی سردی میں غداری کے طعنوں اور تشدد بھرے لہجوں نے جو گرمی پیدا کی ہوئی ہے، اُس کی حدت بہت دور تک محسوس کی جارہی ہے۔
کل کیا ہونے جارہا ہے، اس کا علم تو فقط خدائے لم یزل کو ہے…… مگر انسانی عقل کا اندازہ یہی ہے کہ آگ پر بروقت قابو نہ پایا جائے، تو بہت کچھ بھسم ہونے کا امکان رہتا ہے۔ اس لیے ماہِ دسمبر کے رومانوی شب و روز کا تقاضا ہے کہ مکالمہ اور برداشت کو پروان چڑھایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو انتہاؤں کے اس جاری سفر میں حال ویسا ہوجائے، جو پت جھڑ کے اس موسم میں درخت سے جدا ہوتے پتوں کا ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










