پاکستان کا معاشرتی ڈھانچا ہمیشہ سے تضادات کا ایک ایسا جنگل رہا ہے، جہاں طاقت ور اور کم زور کے درمیان فاصلہ صرف طبقاتی نہیں، بل کہ ذہنی، معاشی اور ادارہ جاتی تقسیم کا بھی مرہونِ منت ہے۔ اس معاشرے میں اشرافیہ کے لیے قوانین، مراعات اور زندگی کے اصول کچھ اور ہوتے ہیں، جب کہ عام شہری کے لیے یک سر مختلف۔ اور یہی وہ تضاد ہے، جس نے صدیوں سے انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور طاقت ور طبقے کو لا قانونیت کے گھوڑے پر بٹھا کر کم زوروں کو خاموش کرانے کا ہنر سکھا دیا۔
ایسے معاشرے میں اگر کوئی ایک شخص اس بے ترتیب نظام کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے، تو وہ صرف ایک فرد نہیں رہتا، بل کہ پورے فرسودہ ڈھانچے کے سامنے کھڑا ایک سوال بن جاتا ہے۔ ایمان زینب مزاری بھی اسی سوال کا نام ہے۔
ایک نہتی لڑکی جس نے اپنے طبقے کی روایات، آرام دِہ طرزِ زندگی اور مراعات یافتہ راستوں کو چھوڑ کر وہ راستہ چنا، جو کانٹوں سے بھرا تھا، جس پر چلنے والے کو نہ صرف دھمکیاں، مقدمات اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بل کہ پورا طاقت ور نظام اُس کے مقابل کھڑا ہوجاتا ہے۔
ایمان مزاری کی زندگی کا آغاز دیگر ایلیٹ کلاس کی لڑکیوں کی طرح یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلا تعلیمی ماحول سے ہوا۔ اگر وہ چاہتیں، تو آج اُن کی صبح کسی اعلا کلاس جم میں شروع ہوتی، دوپہر کسی فائیو اسٹار کیفے میں گزرتی اور رات کسی کلب یا پُرتعیش پارٹی کی روشنیوں میں ڈوب جاتی۔ اُن کے پاس اپنے طبقے کی ہر وہ سہولت موجود تھی، جو اُنھیں عام شہریوں سے مکمل طور پر بے نیاز بنا سکتی تھی…… لیکن ہر طبقہ اپنے اندر کچھ ایسے افراد بھی رکھتا ہے، جو اپنی ذات سے اُوپر اُٹھ کر معاشرتی درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ایمان اُن میں سے ایک ہے، وہ لڑکی جو چاہتی، تو دنیا کی آسانیوں میں کھو کر اپنی زندگی گزار سکتی تھی، لیکن اُس نے وہ راستہ چنا، جو نہ اس طبقے کو پسند تھا اور نہ طاقت ور حلقوں کو…… کیوں کہ وہ راستہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا راستہ تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے مقدمات لڑنا صرف ایک قانونی ذمے داری نہیں، بل کہ سیاسی، سماجی اور ادارہ جاتی مافیا سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔ ایسے کیسوں میں وکیل کو محض قانونی دلائل نہیں دینے پڑتے، بل کہ اسے پورے طاقت ور انتظامی نیٹ ورک کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت بھی دکھانا پڑتی ہے۔ بڑے بڑے وکیل ایسے مقدمات میں ہاتھ ڈالنے سے گھبراتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے لیے ایسے کیس صرف کاغذوں پر درج حقائق نہیں ہوتے، بل کہ کئی بار طاقت ور حلقوں کے مفادات، ادارہ جاتی دباو اور مسلسل خطرات کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایمان مزاری نے کئی ایسے کیس لڑے، جنھیں سننے سے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔ اس کے پیچھے نہ کوئی پیسا تھا، نہ ذاتی فائدہ، نہ سیاسی مفاد۔ بس صرف ایک عادت تھی……مظلوم کا ساتھ دینیکی۔
اس طبقاتی معاشرے میں جب ایک لڑکی، وہ بھی سابق وفاقی وزیر کی بیٹی، غریبوں کے مقدمات بغیر فیس لڑے، جیلوں کے چکر کاٹے، عدالتوں کے دھکے کھائے، ایف آئی آر بھگتے اور نظام کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنے، تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے ایک بڑا فلسفہ ہوتا ہے۔ ایک فیصلہ کہ طاقت کو چیلنج کرنا ہے۔ انسانیت کو مقدم رکھنا ہے اور ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرنا ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں ایمان مزاری ایک شخصیت کے بہ جائے ایک استعارہ بن جاتی ہے، طاقت کے سامنے سچ بولنے کی علامت…… اور مظلوموں کے حقوق کی آواز۔
ایلیٹ کلاس کی تعریف صرف دولت اور آسایش نہیں ہوتی، بل کہ یہ ایک ذہنی فریم ورک بھی رکھتی ہے، جس کے مطابق عام لوگ صرف ووٹ دینے، ٹیکس دینے اور خدمت کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس طبقے کی لڑکیوں کی صبحیں مہنگے کافی مگ، یوگا میٹس، ڈیزائنر ہینڈ بیگز اور کلبوں کی مہک میں گزرتی ہیں۔ اُن کی گفت گو میں ملکی مسائل نہیں، بل کہ یورپ کے فیشن، دبئی کی افطاریاں، لندن کی شاپنگ اور نیویارک کے ویک اینڈز شامل ہوتے ہیں۔ اسی طبقے کی ایک لڑکی جب غریب کے درد سے متاثر ہو کر عدالتوں کے چکر لگائے، تو یہ پورے طبقاتی نظام پر ضربِ کاری کے مصداقہے۔ کیوں کہ وہ اس نظریے کو توڑ دیتی ہے کہ مراعات یافتہ لوگ مظلوموں سے کترا کر چلتے ہیں۔
ایمان کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ طاقت کے سامنے نہیں جھکی۔ اُس نے اُن مقدمات کو ہاتھ لگایا، جنہیں چھونے سے بڑے بڑے وکیل کتراتے ہیں۔ اس معاشرے میں طاقت کے خلاف آواز اُٹھانے والے کو پہلے خبردار کیا جاتا ہے، پھر بدنام کیا جاتا ہے، پھر اُس کے خلاف مقدمات بنائے جاتے ہیں…… اور آخر میں ریاستی ادارے اس کی زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایمان بھی ذکر شدہ مراحل سے گزری۔ اُس کے خلاف ایف آئی آرز فائل کی گئیں، گرفتاری کی کوششیں کی گئیں، اُس کے شوہر کو بھی نشانہ بنایا گیا اور اسے عدالتوں کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا گیا…… لیکن ہر دھچکے کے بعد ایمان اُسی جگہ کھڑی نظر آئی، جہاں سے وہ چلی تھی ،بدلتے ہوئے بیانیے سے بے نیاز، دباو سے بے خوف…… اور مظلوموں کے ساتھ کھڑی۔
پاکستان میں طاقت کے استعمال کا جو غیر متوازن ماڈل ہے، وہ صرف سیاسی نہیں، بل کہ معاشرتی بھی ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، عدالتیں، میڈیاہر سطح پر طاقت کا ایک عجیب تعلق قائم ہے، جس کے ذریعے کم زور کو ہمیشہ کم زور رکھا جاتا ہے اور طاقت ور کو ہمیشہ بچایا جاتا ہے۔ ایسے نظام میں ایمان مزاری جیسے لوگ ایک روشن چراغ کی مانند نظر آتے ہیں، جو اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی کرن بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ صرف وکیل نہیں، بل کہ سماجی شعور کی علامت بنتے ہیں، ایسے شعور کی جو ہر حال میں سچ کا ساتھ دیتا ہے، چاہے قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کرنا انسانی فطرت کا بلند ترین اظہار ہے۔ اسلام جس مرتبے کو ایمان کا اعلا ترین درجہ قرار دیتا ہے، طاقت سے ظلم روکنا،وہی ایمان مزاری کی شخصیت میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ تیسرے درجے پر ہیں، یعنی ظلم دیکھ کر خاموش رہنے والے، صرف زبان سے افسوس کرنے والے…… یا پھر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے۔
لیکن ایمان نے وہ راستہ چنا، جو سب سے مشکل ہے…… عمل کا راستہ، جد و جہد کا راستہ اور خطرات کا راستہ۔
ایمان کی اس مزاحمت نے نہ صرف پاکستانی سماج کو جھنجھوڑا، بل کہ یہ بھی ثابت کیا کہ طبقہ کبھی انسانیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، اگر نیت سچی ہو، تو۔ وہ لڑکی جو شاپنگ مالز، پارٹیز، برگر کلبوں اور لاؤنجز کی دنیا میں رہ سکتی تھی، اُس نے خود کو گلی محلوں کے غریبوں، مزدوروں اور پسے ہوئے لوگوں کے ساتھ جوڑ لیا،صرف اس لیے کہ اُس کے اندر نا انصافی کے خلاف آگ تھی، وہ تڑپ جو انسان کو عام زندگی سے غیر عام راستوں پر لے جاتی ہے۔
ہمارے ملک جیسی ریاست میں، جہاں سچ بولنے پر لوگ غائب کر دییجاتے ہیں، جہاں طاقت ور سے سوال کرنا جرم سمجھا جاتا ہے، جہاں عدالتیں کم زور کے لیے تاخیر کا نام ہیں اور طاقت ور کے لیے سہولت کا؛ وہاں ایمان مزاری جیسے چند ہی لوگ ہیں، جو اس خوف زدہ معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’’ظلم ظلم ہوتا ہے، چاہے کرنے والا کوئی بھی ہو!‘‘
آخر میں سوال یہ نہیں کہ ایمان مزاری کون ہے، بل کہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کوئی ایمان جیسا ایمان اور ہمت رکھنے کو تیار ہے؟
جب روزِ محشر کھڑے ہوں گے، تو ہم سب سے پوچھا جائے گا کہ کتنے مظلوموں کا ساتھ دیا، کتنے ظالموں کو للکارا، کتنی آوازیں اٹھائیں اور کتنی بار خاموشی کو ترجیح دی؟ شاید وہ دن ہماری آنکھوں کو شرم سے جھکا دے، لیکن ایمان کے دامن میں یقینا وہ نیکیاں ہوں گی، جو مظلوموں کی آہوں، دعاؤں اور سچائیوں کی صورت میں ثبت ہوچکی ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ اس باہمت نہتی لڑکی کی حفاظت فرمائے اور اس کو دنیا و آخرت میں کام یابی عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










