بے مقصدیت کا سیلاب اور ہماری ذمے داریاں

Blogger Doctor Ubaid Ullah

انسان کی زندگی خیر و شر، نیکی و بدی، تقوا و نفس اور ایمان و آزمایش کے امتزاج سے بنتی ہے۔ اسلام، فرد کی اصلاح اور معاشرتی پاکیزگی دونوں پر زور دیتا ہے۔ کیوں کہ انسان کے اعمال صرف اُس کی ذات تک محدود نہیں رہتے، بل کہ اُن (اعمال ) کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ گناہ بنیادی طور پر فرد اور اللہ کا معاملہ ہے، مگر جب یہی غلط رویہ معاشرتی عادت بن جائے، تو وہ ایک اجتماعی خرابی کا سبب بنتا ہے۔
انسان فطری طور پر کم زور ہے۔ اس کا نفس خواہشات کی طرف مائل کرتا ہے اور شیطان برائی کی طرف بلاتا ہے۔ اس لیے گناہوں سے بچنا تقوا، خوفِ خدا اور صحیح علم کی مضبوطی کا نتیجہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر حال میں اللہ سے ڈرنے، غلطی ہو جائے، تو فوراً توبہ کرنے اور لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرد کی اصلاح دراصل معاشرے کی اصلاح کی بنیاد ہے۔
لیکن مسئلہ اُس وقت سنگین ہو جاتا ہے، جب انفرادی غلطیاں معاشرتی رجحانات کی شکل اختیار کرلیں۔ مثلاً بے حیائی، فحاشی، غیر سنجیدہ اور بے مقصد محافل، نامناسب گانے، رقص و سرود اور ایسا ماحول جو سنجیدگی، وقار اور اخلاق کو کم زور کر دیتاہے۔ اس کومعاشرے کا معمول بنایا جائے، تو پھر یہ وقتی تفریح نہیں، بل کہ ایک مستقل نقصان دِہ لہر بن جاتے ہیں۔ جب اس قسم کی سرگرمیاں اداروں میں عام ہوجائیں، تو نہ صرف تعلیم متاثر ہوتی ہے، بل کہ طلبہ کی شخصی نشو و نما، فکر، اخلاق اور کردار بھی کم زور پڑنے لگتے ہیں۔ اسی لیے قرآن معاشرتی بگاڑ کی ایسی لہر سے خبردار کرتا ہے، جو صرف کرنے والوں تک محدود نہیں رہتی، بل کہ پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
تعلیمی ادارے خواہ مدرسہ ہو، اسکول یا کالج ہو یا پھر یونیورسٹی…… اپنی اصل فطرت میں علم و تربیت کے مراکز ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد کردار سازی، علمی سنجیدگی، اخلاقی پاکیزگی اور فکر کی مضبوطی ہے۔ ادارہ خود برائی کا ذمے دار نہیں ہوتا؛ ماحول اسے بناتا یا بگاڑتا ہے۔ اگر ماحول میں وقار، سنجیدگی، باحیائی، فکر انگیز سرگرمیاں، علم و تحقیق کی قدردانی اور اساتذہ کی عملی راہ نمائی ہو، تو طلبہ مُثبت اثر لیتے ہیں…… لیکن اگر اداروں میں بے ہودہ، غیر اخلاقی اور بے فائدہ پروگراموں کی حوصلہ افزائی ہونے لگے اور فضول مشاغل کو عام کیا جانے لگے، تو تعلیم کا مقصد متاثر ہوتا ہے۔ ایسی سرگرمیاں وقت، صلاحیت اور مستقبل تینوں کو ضائع کرتی ہیں۔ اس لیے ان پروگراموں کا دفاع کرنا، انھیں تفریح یا ثقافت کا لبادہ پہنا کر جائز قرار دینا، یا ان کے پھیلاو کو معمول سمجھنا غلط ہے۔ ان کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنا اور انھیں اداروں سے دور رکھنا ضروری ہے۔
اس کے مقابلے میں مُثبت، سنجیدہ، باوقار اور مفید سرگرمیوں کو فروغ دینا نہ صرف طلبہ کی شخصیت بناتا ہے، بل کہ ادارے کے معیار کو بھی بلند کرتا ہے۔ علمی مقابلے، فکر انگیز مباحثے، تحقیقی سرگرمیاں، کھیلوں کے صحت مند مقابلے، تربیتی ورک شاپ، سماجی خدمت کے پروجیکٹ اور اخلاقی تربیت کے پروگرام وہ سرگرمیاں ہیں، جو طلبہ کے ذہن، اخلاق، کردار اور مستقبل کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتی ہیں۔
ان حالات میں اداروں کے منتظمین، اساتذہ، طلبہ، والدین اور پوری سوسائٹی کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ
٭ بے فائدہ، غیر اخلاقی اور بے مقصد سرگرمیوں کو روکیں اور علمی و اخلاقی ترقی کے لیے مثبت ماحول فراہم کریں۔
٭ منتظمین کو چاہیے کہ اداروں کے ماحول کو پاکیزہ رکھیں اور اُصولی حدود قائم کریں۔
٭ اساتذہ طلبہ کے لیے بہترین نمونہ بنیں۔
٭ طلبہ اپنی صلاحیتوں کو فضول مشاغل میں ضائع کرنے سے بچیں۔
٭ والدین گھر میں تربیت کا ماحول مضبوط کریں۔
٭ معاشرہ ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرے، جو نوجوان نسل کے اخلاق و فکر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاشرتی بہتری کے لیے یہ اُصول دیا کہ جو برائی دیکھی جائے، اُسے روکنے کی کوشش کی جائے ، اور جو بھلائی دیکھی جائے، اُسے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ یہی اُصول اجتماعی زندگی کی اصل بنیاد ہے۔ فرد کی خطا فرد کی ہے، مگر اجتماعی برائی پوری قوم کا نقصان بن جاتی ہے۔ اسی لیے اسلام، فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی تعمیر کو بھی لازمی قرار دیتا ہے، تاکہ انسان ذاتی طور پر بھی بہتر ہو اور معاشرہ بھی اخلاقی، فکری اور تہذیبی طور پر مضبوط بنیادوں پر قائم رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فرد کی اصلاح معاشرے کی اصلاح کا آغاز ہے اور معاشرتی اصلاح فرد کی حفاظت کی ضمانت۔ اگر ہم نوجوانوں کو بے مقصد مشاغل کی بھٹی میں جھونکتے رہیں، تو مستقبل کا منظر زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔
اس لیے اب وقت ہے کہ ہم اداروں، گھروں، محفلوں اور سماجی سرگرمیوں سے بے ہودگی اور بے مقصدیت کو نکال باہر کریں اور اس کی جگہ علم، اخلاق، وقار اور مُثبت سرگرمیوں کا کلچر فروغ دیں۔ یہی وہ راستہ ہے، جو ہماری نئی نسل کو مضبوط، باشعور اور باکردار بنا سکتا ہے…… اور یہی وہ بنیاد ہے، جس پر ایک صحت مند اور مہذب معاشرہ قائم ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے