جمہوریت کی گم شدہ روح

Blogger Ikram Ullah Arif

امریکی صدر اور نیویارک کے مئیر نے پہلی ملاقات میں سب لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ مئیر جو جیت سے قبل انتخابی مہم میں امریکی صدر کو ’’فاشسٹ‘‘ اور آمر کہتے رہے، جب کہ امریکی صدر ممدانی کو ’’کمیونسٹ‘‘ اور ’’مذہبی جنونی‘‘ پکارتے رہے۔
سیاسیات میں یہ حیران کن بھی نہیں، جیسا کہ پوری دنیا میں انتخابی مہمات میں مخالفین ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ معاملات ذاتی زندگیوں تک بھی متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً: فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کے مخالفین نے اس کی بیوی اور ملک کی خاتونِ اوّل کی ذات کو یہ کَہ کر نشانہ بنایا ہے کہ یہ ’’خاتون نہیں، بل کہ مرد ہے۔‘‘ یہ بہت سنگین سیاسی مخالفت ہے اور اسی تناظر میں عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے، جس میں ملک کا وزیرِاعظم سائنسی شواہد کے ساتھ یہ ثابت کرنے میں لگا ہے کہ اس کی زوجہ مرد نہیں، بل کہ خاتون ہی ہے۔
اسی تناظر میں ہماری ملکی سیاست میں اَن گنت مثالیں موجود ہیں، جہاں سیاسی مخالفت کے لیے ہر حد کو عبور کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ سیاسی عقیدت تو پارٹی، نظریہ اور لیڈر سے محبت، عصبیت میں بدل جاتی ہے اور مخالفین کے لیے نفرت جزوِ لاینفک…… مگر ظاہر ہے، مشرقی اور مغربی معاشروں کی مبادیات میں بعدالمشرقین واقع ہے۔ اس لیے سیاسی مخالفت میں جو آزادیاں وہاں میسر ہوسکتی ہیں، ممکن ہے وہ یہاں سماج مخالف سمجھی جا رہی ہوں۔ مثلاً: وہاں جنسی یا صنفی بنیادوں پر کوئی تفریق برتی نہیں جاتی، اس لیے اگر عورت اور مرد سیاست میں مخالف اُمیدوار ہوں، تو فریقین کا ایک دوسرے پر ’’رکیک‘‘ سیاسی حملوں کے لیے گنجایش نکل سکتا ہے۔ برخلاف اس کے ہمارے ہاں عورت کو نسبتاً زیادہ احترام دیا جاتا رہا ہے اور مخالفت میں بھی خواتین کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا رہا۔
یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ دس پندرہ سالوں میں جو سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں، اُن میں اَب مذکورہ حدود و قیود کو بڑی بے شرمی کے ساتھ پامال کیا جا رہا ہے۔ اب فقط وہی خاتون یا مرد قابلِ احترام ہے، جو آپ کا ہم نظریہ ہے، یا آپ کے قائدین میں شمار ہوتا ہے۔ رہے مخالفین، تو وہ مرد ہوں یا خواتین…… سب کے سب قابلِ گردن زدنی ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک رویہ ہے، جس سے سیاست بند گلی میں پھنس جاتی ہے۔
قارئین! ہم نے بات شروع کی تھی امریکی صدر اور نیویارک کے نو منتخب مئیر کی ملاقات سے، کہ کس طرح دونوں انتخابی مہم میں ایک دوسرے کے شدید ترین مخالف رہے، لیکن بعد از انتخابات نہ صرف فریقین نے نتائج قبول کیے، بل کہ اس ملاقات سے لوگوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ووٹرز اور سماج کی بہتری کے لیے باوجود سیاسی مخالفت کے مشترکہ اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔
ہم پُرامید تھے کہ طویل آمریتوں کے بعد جب ہمارے ہاں نام نہاد ہی سہی، جمہوری قوتوں کو کچھ نہ کچھ حصہ ملا ہے، تو اسی کا فائدہ اٹھا کر وسیع الحصہ جمہوری عمل کو دوام دیا جائے گا، عوامی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ایک مثالی نہ سہی، مگر نسبتاً بہتر جمہوری سماج کی آب یاری کی جائے گی۔ افسوس کہ سیاسی مخالفتیں ذاتی رنجشوں تک بڑھ گئیں اور اب معاشرے میں انتہاؤں کا راج ہے۔ عدم برداشت ہے، جو سر چڑھ کر بول رہا ہے ، کوئی کسی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ نتیجتاً ایک ہیجان ہے، جو سماج میں موج زن ہے۔
اسی تناظر میں آئینی ترامیم کے ذریعے سماجی بندشوں کو مزید کسا جا رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ مزید ترامیم کے ذریعے ایک ایسے نظام کی ترویج کا آغاز کیا جائے، جہاں سیاست ہی ناپید ہو جائے اور جب سیاست ہی نہ رہے، تو سیاسی مخالفت کی ٹِک بنی ہی نہیں رہے گی۔ پھر ایک ایسا معاشرہ جنم لے گا، جہاں صرف ’’شاہ‘‘ کا فرمان حرفِ آخر مانا جائے گا اور نافرمانی کرنے والے کو انجام سے دوچار کیا جائے گا۔
اگر ایسا کوئی منصوبہ ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام سماج میں موجود بنیادی تفاوتوں کو ختم کر پائے گا؟ اگر ہاں، تو بہتر ہوگا کہ انسانی اور سماجی ترقی ہو۔ خواہ نظام جمہوری ہو، پادشاہی ہو یا ’’ہائبرڈ‘‘ …… لیکن اگر جواب نفی میں نکلتا ہے، تو کیا لوگ خاموش رہ کر نئے نظام کو قبول کر لیں گے؟ اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔
مگر اس کے باوجود کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جیسے امریکی صدر اور نیویارک کے مئیر نے کیا کہ باوجود سیاسی اختلافات کے عوامی بہتری کے لیے دونوں نے خوب صورت انداز سے مصافحہ کیا…… کیا عوامی بہتری کے لیے فریقین ہاتھ نہیں ملا سکتے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے