خواجہ سرا، سماجی شعور اور ریاستی ذمے داری

Blogger Noor Muhammad Kanju

گذشتہ دنوں مینگورہ کے گنجان آباد علاقے شاہدرہ میں خواجہ سراؤں، مقامی افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہونے والی پُرتشدد جھڑپ اور فائرنگ کے تبادلے نے ایک بار پھر معاشرے کے اس گھمبیر اور حساس سماجی مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے، جسے ہم ایک عرصے سے نظرانداز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ خواجہ سرا برادری کو عام لوگوں کی جانب سے تضحیک، توتومیں میں یا ہاتھا پائی کا سامنا کرنا پڑا ہو؛ یہ واقعات ہمارے معاشرتی رویوں اور ریاستی ذمے داریوں پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔
خواجہ سرا وہ افراد ہیں، جو پیدایشی طور پر قدرت کے تخلیقی عمل کا ایک حصہ ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارا جنس زدہ معاشرہ ان کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ ان کی کہانی عموماً اپنے ہی گھر سے شروع ہونے والی ایک لازوال جَلا وطنی کی داستان ہے۔ یہ لوگ اپنے اہلِ خانہ، خاندان اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بے بسی کی انتہا ہے کہ جب ایک انسان کو اپنے ہی خون کے رشتے قبول نہ کریں، تو وہ کہاں پناہ لے؟ یہی وجہ ہے کہ یہ بے گھر افراد استحصال کا سب سے آسان شکار بن جاتے ہیں۔
جب معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی، تو ان کی مجبوری انھیں سڑکوں پر لے آتی ہے۔ یہاں ان کے سر پر نہ تو ریاست کی جانب سے چھت ہوتی ہے اور نہ انھیں کوئی محفوظ پناہ گاہ ہی میسر آتی ہے۔ عدم تحفظ اور بے چارگی کی اس فضا میں ان کا ہر طرح کا استحصال کیا جاتا ہے، چاہے وہ جسمانی ہو، نفسیاتی ہو یا معاشی۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ریاست کے بنیادی فلاحی ڈھانچے اور سماجی ذمے داریوں پر ایک گہرا زخم ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے، جسے توڑنے کے لیے محض ہم دردی نہیں، بل کہ ٹھوس ریاستی اقدامات درکار ہیں۔
اس مسئلے کے پائیدار حل میں سب سے بڑا اور بنیادی کردار ریاست کو ادا کرنا چاہیے۔ خواجہ سرا ایک بے ضرر اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ریاست کی اخلاقی اور آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ان بے بس شہریوں کو اپنے آغوشِ پناہ میں لائے۔
اس ضمن میں ریاست کو چاہیے کہ وہ صرف ان کے وجود کو تسلیم نہ کرے، بل کہ عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کی مناسب تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے، انھیں ہنر مند بنائے، تاکہ وہ دستِ سوال دراز کرنے کی بہ جائے معاشرے کے کارآمد شہری بن کر قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔ انھیں روزگار کے مواقع فراہم کرکے ان کے وقار کو بہ حال کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ریاست کو چاہیے کہ فوری طور پر ملک بھر میں خصوصی تربیتی مراکز اور پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لائے۔ اُن مراکز کو صرف رہایش گاہوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بل کہ انھیں باقاعدہ فنی تعلیم، کمپیوٹر سکلز اور چھوٹے کاروبار کے انتظام کی تربیت فراہم کرنی چاہیے، تاکہ وہ مالی طور پر خود کفیل ہوسکیں۔
ان افراد کی قومی دھارے میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری و نجی اداروں میں مخصوص کوٹے مقرر کیے جائیں، جس سے یہ پیغام ملے کہ خواجہ سرا برادری معاشرے کا ایک فعال اور لازمی جزو ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا بھی اتنا ہی ناگزیر ہے، کیوں کہ ریاستی اقدامات تب ہی کام یاب ہوں گے، جب انھیں سماجی حمایت حاصل ہو۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے خواجہ سرا نہیں بنتا؛ یہ قدرت کی تخلیق اور تنوع کا مظہر ہے۔ انھیں کسی بیماری، گناہ یا لعنت کی علامت سمجھنا سراسر لاعلمی اور تعصب پر مبنی ہے۔ ہر شخص کی طرح، ان کی بھی عزتِ نفس ہے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی ہیں۔ صرف جنس کی بنیاد پر کسی کو حقارت کا نشانہ بنانا، اسے دھتکارنا یا عام شہریوں سے کم تر سمجھنا، نہ صرف ہمارے اخلاقی اقدار کے منافی ہے، بل کہ آئینِ پاکستان کی روح کے بھی خلاف ہے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ عام لوگوں جیسا برتاؤ کریں، ان کے حقوق کا احترام یقینی بنائیں اور انھیں معاشرے کا ایک فعال اور قابلِ عزت حصہ تسلیم کریں۔ ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جب تک ہم سماجی شعور اور ریاستی تحفظ کے دو پہیوں پر اس مسئلے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے، مینگورہ جیسے حالیہ رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اور یہ تاریک سائے ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک بوجھ بنے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response

  1. دہ فحاشئ ملگرتیا ھیس سوک ھم نہ کٙئ، خو اصل کے دا مظلومہ ھیجڑاگان ھُم دہ خُدائ پیدا وخت او دہ دے وطن اصل او پیدائشی مخلوق دے، نو دہ معاشرے خُودساختہ زورآورو لہ پکار دہ چی پہ دے عاجزہ مخلوق دے خپل زور نہ آزمی ئی، بلکہ کہ خواہ مخواہ لاس ئے خارختیگی نو دہ قبضہ مافیآء، منشیات فروشو، آلودگئ، مھنگائئ، لاقانونیت، بی انصافئ، جنگلات کٹائی، دھشت گردئ، فتنہ خوارج او نورو گندہ گیرو خلاف دے آواز پورتہ کی چی دہ دہ لاس دہ خارخ پتہ ئے ولگی……🤭😃😃🤭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے