زمانۂ قدیم میں سفر کا راستہ محض فاصلہ طے کرنے کا نام نہ تھا؛ یہ خوف، بے یقینی اور اندیشے کی ایک مسلسل گزرگاہ تھی۔ انسان کسی اجنبی درخت کے سائے میں بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ طاقت ور قبیلے، کم زور انسانوں پر جھپٹ پڑتے اور یوں ایک آزاد وجود لمحوں میں کسی اور کی ملکیت بن جاتا۔
عورت تو اس ظلمت بھرے دور کی سب سے مرغوب جنس تھی، بازاروں میں کھڑی، ٹٹولی جاتی، پرکھی جاتی اور پھر ایک دام پر تول دی جاتی۔ غلامی صدیوں کے انسانی منظرنامے پر یوں ہی سایہ کیے رہی، کبھی زنجیروں کے ساتھ، کبھی ضرورت، قرض، بھوک یا مجبوری کے نام پر۔
غلام بن جانا دراصل اپنی مرضی کا سودا تھا؛ ایک ایسا سودا جس کے بعد انسان اپنی سانسوں تک میں مختار نہ رہتا۔ مالک کی چاہت اُس کی تقدیر بن جاتی، چاہے وہ اسے بیچ دے، کسی کو تحفے میں دے دے، یا اس کی زندگی کو کسی جنگ کی نذر کردے۔
مرزا اسلم جیراج پوری نے 1800ء کی دہائی میں جب حج کا سفر کیا، تو مکہ معظمہ کی ایک گلی میں اُنھیں بردہ فروشی کی وہ آخری دکان دکھائی دی، جس کے دروازے پر غلامی کا درہم برہم ہوتا ہوا چراغ آخری بار جھلملایا تھا۔
یہ منظر بتاتا ہے کہ غلامی تاریخ کی گرد میں کہیں دفن ضرور ہوگئی تھی، مگر اس کا سایہ انسانی ضمیر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ آج اسی غلامی نے ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے: ’’ہیومن ٹریفکنگ۔‘‘
نیٹ فلکس کی مشہور سیریز ’’دہلی کرائم‘‘ کا تیسرا سیزن اسی درد ناک موضوع کی پرتیں کھولتا ہے۔ بھارت کے دور دراز دیہات سے غریب، معصوم لڑکیوں کو نوکری اور بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر پھنسایا جاتا ہے۔ پھر اُنھیں ایک خفیہ مگر وسیع نیٹ ورک کے ذریعے دوسرے ملکوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے، جہاں 14 سے 20 سال کی لڑکیوں کی ’’ڈیمانڈ‘‘ ایک نفسیاتی بیماری کی طرح موجود ہے۔ کچھ گھر ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں غربت کی دیوار اتنی اونچی ہو جاتی ہے کہ اس کے نیچے بیٹی بھی دب جاتی ہے اور ماں باپ سوچتے ہیں کہ اس ’’رحمت‘‘ کو بیچ دینا چاہیے۔و ہ بچیاں پھر ایک شخص سے دوسرے تک ایسے جاتی ہیں، جیسے کوئی ٹرانزٹ کارگو ہوں۔
انسان ہوں، تو آواز بھی نکلے۔ یہاں آواز نکلتی بھی ہے، تو صرف دیوار سنتی ہے۔ یہ لڑکیاں بے نام اُجڑتی ہوئی زندگیاں ہوتی ہیں، ایک شخص سے دوسرے شخص کے ہاتھوں بکتی چلی جاتی ہیں اور ان کی آواز کسی دفتر، کسی عدالت، کسی تھانے تک نہیں پہنچتی۔
2022ء میں صرف بھارت میں 2 لاکھ 93 ہزار لڑکیاں گم شدہ قرار دی گئیں۔ یہ وہ ہیں، جن کی گم شدگی رپورٹ ہوئی۔ باقی کا حساب شاید صرف خدا کے پاس ہے۔
سیریز ہمیں یہ تلخ سچ بھی بتاتی ہے کہ اس غیر انسانی دھندے کے بڑے مجرم وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کی ظاہری زندگی بالکل معمول کی ہوتی ہے…… گھر، بچے، رشتے، لیکن پیشہ ورانہ زندگی میں سفاکی کا وہ معیار رکھتے ہیں، جس کے لیے زبان بھی لرز جائے۔ شفالی شاہ نے ایک دبنگ مگر درد شناس پولیس آفیسر کا کردار ادا کیا ہے، جو ذمے داری اور مامتا کے درمیان ایک نازک پل پر کھڑی ہے۔
ہما قریشی یعنی بڑی دیدی ایک ایسی عورت ہے، جس کا وجود ہیومن ٹریفکنگ کے اس سیاہ کاروبار کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ شادیوں کے نام پر کم عمر لڑکیوں کی خرید و فروخت، اُنھیں سرحد پار بھیجنے کا گھناؤنا سلسلہ، بڑی دیدی کا کردار جدید غلامی کے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دیتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ دنیا میں غلامی ختم نہیں ہوئی؛ اور انسان اب بھی بکتا ہے، صرف قیمتیں بدل گئی ہیں۔ غلامی ختم کب ہوئی؟ کتابوں میں تو بہت پہلے ختم ہو گئی، مگر انسانوں نے بڑی چالاکی سے اس کا نام بدل لیا۔
زنجیریں کھول دیں…… بازار وہیں رہنے دیے۔
دوزخ سے بھی خراب کہوں میں بہشت کو
دو چار گر وہاں پہ بھی سرمایہ دار ہوں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










