ترمیم نئی اور دُکھ وہی پرانے

Blogger Ikram Ullah

27ویں آئینی ترمیم کے بعد جو ماحول بنا ہوا ہے، اُس نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ مثلاً: کیا یہ پہلی ترمیم ہے؟ جواب ہے: ’’نہیں۔‘‘
کیا یہ آخری ترمیم ہے؟ اس کا بھی جواب نفی میں ہے۔
پھر ایسے میں اتنا واویلا کیوں ہے؟ ترمیم کے حمایتی اور مخالفین دونوں کے پاس درجنوں دلائل ہیں، جن کو دُہرا دُہرا کر خود کو دلاسہ دیا جارہا ہے۔
ترمیم کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ اس سے عالیہ اور عظمیٰ کے خوں خوار دانتوں کو نکالا گیا۔ پارلیمان کو حاصل قانونی سازی کے حق کو مستحکم کیا گیا اور کچھ ناگزیر قومی سلامتی کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تبدیلیاں کی گئیں۔
دوسری طرف مخالفینکا کہنا ہے کہ اس سے عدلیہ کی آزادی ختم کی گئی اور پارلیمان کی بالادستی سے دست برداری اختیار کی گئی۔ ایک فرد کو حد سے زیادہ اختیارات تفویض کیے گئے اور سربراہِ ریاست کو تاحیات استثنا دے کر ’’کچھ بھی‘‘ کرنے کی کھلی اجازت دی گئی۔
قارئین! دونوں طرف کے دلائل میں جھول موجود ہے…… مگر بہ طور ایک عام ملکی شہری جب اس سارے معاملے کا جائزہ لیا جائے، تو پھر ذہن میں کچھ مزید سوالات اُبھرتے ہیں۔ مثلاً: کیا اس ترمیم سے پہلے واقعی ملکی سلامتی داو پر لگی تھی…… اس لیے سلامتی سے متعلقہ عہدوں کو اُلٹ پلٹ کرنا پڑا؟
اگر ایسا ہی ہے، تو اس سال کے اوائل میں روایتی دشمن کو شکست ترمیم سے قبل والے بندوبست کے تحت نہیں دی گئی تھی اور اگر ایسا ہی تھا، تو پھر اس نئے بندوبست کی کیا ضرورت پیش آئی؟
تو کیا واقعی یہ ملک، قوم اور ادارے کی ضرورت تھی یا کسی فرد کی خوش نودی حاصل کرکے اپنی نام نہاد حکومتی اختیارات کو دوام دینے کا بہانہ تھا؟
اسی طرح یہ سوال بھی فطری ہی ہے کہ کیا اس ترمیم سے قبل عالیہ اور عظمیٰ کے گیسوئے خم دار سے عام سائل کو گزرنے کی اجازت تھی؟
کیا سال ہا سال سے اُن منصفی خم دار زلفوں میں ہزاروں سائلین کی لاکھوں عرض داشتیں شنوائی کی منتظر نہیں تھیں؟
کیا پارلیمان واقعی جمہور کی نمایندگی کررہی تھی؟
کیا جمہوریت واقعی اتنی مضبوط تھی کہ امیروں کے متعارف کیے گئے امرانہ اقدامات کو ملکی نظام، قانون اور نصاب سے حذف کرے؟
یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اس لیے اس ملک کا ہر شہری جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس ترمیم کو لے کر عوام کی زندگی اجیرن بنانے کی کوشش میں ہیں، اُن سب سے دست بستہ عرض ہے کہ عوامی جذبات سے کھیلنا بند کریں۔ من پسند سہی، کم زور سہی، مگر کہنے کو ایک پارلیمان کا وجود تو ہے۔ اور اس پارلیمان کا اختیار ہے کہ قانون سازی کرے۔
قارئین! اب اس تمام تر صورتِ حال کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟ یہ اصل معاملہ ہے، جس پر اب تک لب کشائی کم ہی کی گئی۔ زیادہ تر ہر سیاسی پارٹی نے اس معاملے کو ذاتی عینک لگاکے دیکھا۔ اگر عوامی تناظر میں دیکھا جائے، تو عوام کے لیے حالات میں کوئی جوہری منفی یا مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ عوام کا اصل مسئلہ بے چینی ہے، جس کا لامحالہ تعلق بدامنی اور معاشی غیر یقینی صورتِ حال سے ہے۔ موجودہ حالات میں ان دونوں میں بہتری کے آثار بہت جلد دکھائی نہیں دیتے۔ بدامنی میں تو اضافہ ہو رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرے پڑوسی کے ساتھ تجارت کی بندش سے معاشی حالت میں بھی بہتری کے بہ جائے تنزلی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
علاوہ ازیں مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی وہ عوامل ہیں، جو اس ترمیم سے بدلنے والے نہیں۔ لہٰذا جو معاملہ بہ راہِ راست عوامی زندگی سے متعلقہ نہیں، اسے ذاتی سیاسی فوائد کے لیے عوامی مسئلہ بنا کر عوامی ذہنوں کو پراگندہ کرنا عوام کی خیرخواہی ہرگز نہیں۔
ایسی اور بھی ترامیم آئیں گی۔ خود کو نوازنے یا بچانے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کا آغاز دہائیوں پہلے بھی ہوا ہے۔ آج بھی ہورہا ہے اور مستقبل میں بھی کچھ تبدیل ہونے کے آثار نہیں۔ اب اصل معاملہ یہ ہے کہ عوامی بہتری کے لیے بھی کچھ کیا جائے…… مگر افسوس کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تینوں کی ترجیحاتی فہرستوں میں اس بارے کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
لہٰذا اس بارے عوام کو خود کچھ سوچنا چاہیے کہ ان کی بہتری کے لیے کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے