سبق یا تشدد……؟

Blogger Doctor Gohar Ali, Aligrama Swat

اکثر کہا جاتا ہے کہ قوموں کا مستقبل نہ ایوانوں میں لکھا جاتا ہے اور نہ میدانِ جنگ میں،بل کہ اُن چھوٹے کمروں میں جہاں بچے ا، ب، پ سیکھتے ہیں…… مگر جب خیبر پختونخوا کے نجی اسکولوں میں رائج اُردو اور دیگر مضامین کے نصاب کا مطالعہ کیا جائے، تو ایک تشویش ناک حقیقت سامنے آتی ہے۔ ہم تعلیم کے نام پر اپنے بچوں کے ذہنوں میں جنگ کا بیج بو رہے ہیں۔
اردو نصاب کے متعدد اسباق راشد منہاس شہید سے حضرت خنساء، خوشحال خان خٹک سے عجب خان آفریدی تک اکثر جنگ، دشمنی، قربانی اور شہادت کے گرد گھومتے ہیں۔ بچوں کی مشقوں میں بھی گولی، توپ، مورچہ اور دشمن جیسے الفاظ بار بار جھلکتے ہیں، جیسے زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ جذبات کی تربیت بھی جنگی سانچے میں ڈھالی جا رہی ہو۔ یہ اسباق صرف تاریخ نہیں سکھاتے، بل کہ ایک ذہنیت تشکیل دیتے ہیں، ایسی ذہنیت جس میں قابلِ قدر شہری وہ نہیں جو تعمیر کرے، سوچے یا ہم درد ہو، بل کہ وہ جو لڑے، مارے یا مرجائے۔
اس رجحان کی جڑیں نئی نہیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے حال ہی میں ایک ایک وائرل ویڈیو کلپ میں انکشاف کیا ہے کہ 1980ء کی دہائی میں امریکہ کی نیبراسکا یونیورسٹی نے افغان پناہ گزینوں اور سرحدی پاکستانی بچوں کے لیے مخصوص نصاب تیار کیا تھا، جس میں جنگ، جہاد اور دشمن کے خلاف لڑائی کی ترغیب شامل تھی۔ سرد جنگ کے اُس ماحول کی سیاسی ضرورتیں شاید ختم ہوگئیں، مگر اُس سوچ کی بازگشت آج بھی ہمارے نصاب میں محسوس ہوتی ہے۔ دہائیاں بیت گئیں، لیکن لفظ ’’دشمن‘‘، ’’محاذ‘‘ اور ’’شہادت‘‘ آج بھی کتابوں کے اوراق پر غالب ہیں۔
پشاور میں حالیہ ایک قومی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے راہ نما میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی کی جڑیں انھی درسی کتابوں میں پیوست ہیں۔ یہ بیان محض سیاسی نہیں، بل کہ حقیقت کا عکس ہے، جو ہمارے نصابی صفحات سے جھانکتا نظر آتا ہے۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بیانیہ صرف اُردو تک محدود نہیں۔ ’’اقبال سیریز‘‘، ’’ملت سیریز‘‘، ’’تاج کتب خانہ‘‘، ’’سٹار سیریز‘‘ اور ’’سن سیریز‘‘سب میں کہیں نہ کہیں عسکری علامتیں اور جنگی تشبیہات موجود ہیں۔
’’سٹار سیریز‘‘ کی نرسری اور کے جی کی کتاب ’’اُردو قاعدہ بالتصویر‘‘ کی مثال لیجیے۔ اس کے پہلے صفحے پر ہی ٹینک اور حقے کی تصویر لگی ہے۔ حروفِ تہجی سکھانے کے لیے بچوں کو جو تصویریں دکھائی جاتی ہیں، وہ بھی غیر محسوس انداز میں جنگی یا عسکری سوچ کی سمت لے جاتی ہیں۔ جیسے: ’’خ سے خنجر‘‘، ’’ن سے نشانِ حیدر‘‘، ’’ٹ سے ٹینک‘‘، ’’ف سے فوجی‘‘ اور ’’ی سے یلغار‘‘۔ جب ایک تصویر بچوں کو دکھا کر اُن سے یلغار کے بارے میں سوال کیا گیا، تو ایک معصوم بچے نے جواب دیا کہ ’’یہ لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔‘‘ یہ جواب اس پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے کہ ہم بچے کو ’’الف سے آگے بڑھانے‘‘ کے بہانے اُسے کس دنیا کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
انگریزی کے الفابیٹس میں بھی یہی روش دکھائی دیتی ہے۔ جیسے "G for Gun” اور "R for Rocket”۔ یہ محض حروف نہیں، بلکہ ذہنوں پر پڑنے والے ابتدائی نقوش ہیں، جو زندگی بھر ذہنی رویوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اور تو اور سائنس جیسا غیر جذباتی مضمون بھی اس بیانیے سے محفوظ نہیں رہ پایا۔ نیوٹن کے تیسری قانون کی وضاحت یوں کی جاتی ہے:”When a bullet is fired from a rifle……!” یعنی قوت کے تصور کو واضح کرنے کے لیے بھی مثال گولی اور رائفل ہی کی دی جاتی ہے۔
نیز بچوں کو غیر جان دار چیزیں سکھانے کے لیے بھی ’’ہتھوڑا‘‘، ’’خنجر‘‘، ’’کلاشنکوف‘‘ اور اسی نوعیت کے اوزاروں کی تصویریں استعمال کی جاتی ہیں۔ یوں نصاب کا ہر گوشہ غیر محسوس انداز میں عسکری عناصر سے لب ریز نظر آتا ہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب ایک سات سالہ بچہ روز یہ دیکھے اور سنے کہ ’’جنگ میں مرنا عظمت ہے‘‘، ’’دشمن ہمیشہ دوسرا ہے‘‘ اور ’’بندوق طاقت کی علامت ہے‘‘ تو اُس کے ذہن میں ہم دردی، مکالمہ اور برداشت کے لیے کتنی جگہ بچے گی؟ ہم صرف علم نہیں دے رہے، بل کہ احساسات تراش رہے ہیں، رویے بنا رہے ہیں، وہ بنیاد رکھ رہے ہیں، جس پر آنے والے کل کا معاشرہ کھڑا ہوگا۔
ہم یہ نہیں کہتیکہ ہم تاریخ بھلا دیں یا اپنے بہادر کرداروں کو فراموش کر دیں۔ اصل سوال بیانیے کے توازن کا ہے۔ ہم بچوں کو عبدالستار ایدھی کی انسان دوستی کیوں نہیں پڑھاتے؟ باچا خان کے عدم تشدد کے اُصول کیوں نہیں سکھاتے یا اُن اساتذہ اور سماجی کارکنوں کی کہانیاں کیوں نہیں سناتے، جو خاموشی سے علم اور انسانیت کا چراغ روشن کرتے ہیں؟ ایسا نصاب کیوں نہیں بنتا، جو فکر کا مادہ پیدا کرے، گفت گو سکھائے، ہم دردی جگائے اور حب الوطنی کو خدمت اور دیانت سے جوڑے نہ کہ بندوق اور نعرے سے……؟
خواجہ آصف اور میاں افتخار حسین کی باتوں کا حاصل یہی ہے کہ نصاب محض کتاب نہیں ہوتا،یہ قوم کی روح کا آئینہ ہے۔ جو ہم آج بچوں کے ذہنوں میں لکھ رہے ہیں، وہی کل ہمارا اجتماعی تشخص بنے گا۔ اگر ہم جنگ کے بیج بوئیں گے، تو نتائج بھی اُسی نوعیت کے ہوں گے؛ اور اگر ہم امن، انسانیت اور مکالمے کے بیج بوئیں گے، تو ہمارے بچوں کا مستقبل شاید ویسا ہو جائے، جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے