حالیہ دنوں کالام میں کئی دن تک مقامی لوگوں اور انتظامیہ کے بیچ مذاکرات کا کھیل جاری رہا۔ سوشل میڈیا پر سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا صحافیوں نے فریقین کے بیچ مذاکرات کی کام یابی اور کسی ایگریمنٹ کا بھی اعلان کیا۔ مبارک بادیں بھی دی گئیں۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کالام میں جس زیرِ تعمیر ہوٹل کے کچھ حصے گرانا تھے، اب اُس پوری عمارت کو گرایا جارہا ہے اور ساتھ میں دوسری عمارات کی بھی خیر نہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں پورے ملک میں آرڈیننس کا دور شروع ہوا۔ یہ وہی دور ہے، جس میں اُس وقت کے این ڈبلیو ایف پی (موجودہ خیبر پختون خوا) میں بھی دو اہم آرڈیننس سال 2002ء میں نافذ کیے گئے اور دونوں کا تعلق شمالی خیبر پختون خوا سے زیادہ بنتا ہے۔ ان میں ایک فارسٹ آرڈیننس 2002ء اور دوسرا ریور پروٹیکشن آرڈیننس 2002ء قابل ذکر ہیں۔یہ فارسٹ والا آرڈیننس وہی ہے، جس کی رو سے قدرتی جنگلات میں سے بھی مقامی لوگوں کو مالکانہ حقوق سے نکال دیا گیا، جب کہ ریور پروٹیکشن آرڈیننس 2002ء کی رو سے دریاؤں کے کنارے زمینوں پر دریا سے دونوں طرف 200 فٹ کے فاصلے پر عمارات کی تعمیر کی اجازت دی جائے گی۔
مذکورہ آرڈنینسوں کو بعد میں صوبائی اسمبلی سے پاس کراکر ایکٹ یعنی پارلیمانی تحفظ دیا گیا۔ ریور پروٹیکشن آرڈیننس کو 2014ء میں ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کے طور پر پاس کرایا گیا۔ اُس وقت ہمارے حلقے سے ایم پی اے جعفر شاہ صاحب تھے اور وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے قوی امکان یہی ہے کہ اُنھوں نے اس کو ووٹ نہیں کیا۔
یہ ایکٹ پہاڑی علاقوں خصوصاً تحصیل بحرین (کالاکوٹ اور پیا سے اوپر کا علاقہ) کی جغرافیائی حالت کے بالکل برعکس ہے کہ یہاں پوری گھاٹی میں بیش تر جگہوں پر دریائے سوات سے 200 فٹ کی زد میں صرف مکانات ہی نہیں، بل کہ پورے محلّے اور گاؤں آجاتے ہیں۔ دوسری جانب اس علاقے کے ایک بڑے سیاحتی حصے یعنی کالام اور اتروڑ وادیوں میں بندوبست بھی نہیں کیا گیا ہے۔
گذشتہ کئی سالوں سے صوبائی حکومت باربار ایکسکیویٹرز لے کر نکلتی ہے اور کالام، بحرین اور مدین میں کئی عمارات کا حلیہ بگاڑ کر چلی جاتی ہے۔ مقامی لوگ اور سرمایہ کار، حکومتی انتظامیہ سے وقتی طور پر مذاکرات کرکے کچھ عمارات کو بچالیتے ہیں، مگر چوہے اور بلی کا یہ کھیلجاری رہتا ہے۔ جیسے ہی حکومتی مشینری کو شوق چڑھتا ہے، وہ پھر بھاری مشینری لے کر نکلتی ہے اور کئی دیگر عمارات کا پھر حلیہ بگاڑ دیتی ہے، مگر مذاکرات جاری رہتے ہیں۔
دوسری جانب ان علاقوں کے انتخابی حلقوں پر جیتنے والے نمایندے بھی بہ ظاہر اپنی کوشش عوام کے حق میں کرتے دِکھائی دیتے ہیں، تاہم کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوپاتی۔ اس پوری کش مہ کش کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک طرف سیاحت کو دھچکا لگتا ہے، تو دوسری جانب یہاں سرمایہ کاری کرنے سے لوگ گریز کرتے ہیں۔ ساتھ ان حرکتوں سے ان علاقوں میں زمین کی قیمت بھی گرجاتی ہے۔
ابھی ابھی ستمبر ہی میں حکومت کی طرف سے خبر آئی تھی کہ صوبائی حکومت اس ’’ریور پروٹیکشن ایکٹ‘‘ میں ترمیم کرانا چاہتی ہے، مگر اسی خبر کے مطابق یہ 200 فٹ والی شق تبدیل نہیں کی جائے گی۔ ترامیم کے اس بھیانک دور میں یہ ترمیم ہوگئی ہے، یا نہیں……؟ اس کی کوئی خبر نہیں ۔
ہمارے نمایندے مگر مچھ کے آنسو نہ بہائیں۔ اُن کو چاہیے کہ ترمیم والی اُس خبر کو یاد کرلیں اور اپنی طرف سے 200 فٹ والی شق کو 40 فٹ تک لانے کی ٹھوس تجاویز دیں ۔ اسمبلی میں کھڑے ہوکر اس مسئلے پر کھل کر بات کریں، ورنہ عام لوگ اُن پر وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کا الزام لگائیں گے۔
مقامی سرمایہ کاروں، خصوصاً ہوٹل ایسوسی ایشنز، کو اجتماعی طور پر اس ایکٹ کو کسی اعلا عدلیہ یا عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا سوچنا چاہیے، تاکہ اس پر کوئی حتمی فیصلہ سامنے آئے۔ ورنہ یہ تلوار اس علاقے کے سر پر یوں ہی لٹکتی رہے گی۔
ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ اس قانون میں ہر قسم کی عمارت کی بات کی گئی ہے کہ ایسی عمارات کو دریاؤں سے 200 فٹ دور تعمیر ہونا ہے، مگر درال ہائیڈرو پاؤر ہاؤس کی عمارت نے آدھے سے زیادہ دریا پکڑا ہوا ہے اور اس کو حکومت تجاوزات نہیں سمجھتی۔ اسی پاؤر ہاؤس کی موٹی دیوار کی وجہ سے دریا کے بائیں کنارے سنہ 2022ء کے سیلاب نے ایک شخص کی کئی کنال زمین دریا برد کردی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










