ڈپٹی کمشنر سوات، محترم سلیم جان مروت!
یہ چند سوالات ایک شہری کے دل سے اُٹھ رہے ہیں، وہ شہری جب روز اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکلتا ہے، تو ٹریفک میں پِستا ہے، دفاتر کے چکر کاٹتا ہے اور نظام کی بے حسی کا شکار ہے۔ آپ اس ضلع کے بادشاہ اور نگہ بان ہیں۔ کیا آپ کو احساس اور اندازہ ہے کہ آپ کے زیرِ انتظام یہ پورا نظام کس حال میں ہے؟
جنابِ والا! آپ کے پاس اختیار بھی ہے، وسائل بھی ہیں، افسران کی ٹیم بھی ہے، دفاتر، گاڑیاں، پولیس اور بجٹ سب کچھ موجود ہے۔ پھر بھی عوامی مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے؟ یہ سوال پوچھنے میں شہری حق بہ جانب ہیں کہ آخر اس تمام انتظامی ڈھانچے کے باوجود شہری کیوں پریشان ہیں؟
جنابِ عالی! کیا آپ نے کبھی خود بازاروں اور سڑکوں کا جائزہ لیا؟ ٹریفک کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ غیر قانونی رکشوں، موٹرسائیکلوں اور بھانت بھانت کی گاڑیوں نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ کم عمر اور لائسنس کے بغیر گاڑیاں دوڑانے والے ڈرائیور شہریوں کے سر پر لٹکتی تلوار بنے ہوئے ہیں۔ بازار میں چلنا اور اپنی ضرورت پوری کرنا عذاب بن گیا ہے۔ غیر قانونی پارکنگ اور تجاوزات کی وجہ سے سڑکیں، فٹ پاتھ اور ہر قسم کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
جنابِ عالی! بڑے پلازے تعمیر ہو رہے ہیں، مگر پارکنگ ایریا موجود نہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ ایسے پلازوں کے تعمیراتی نقشے کیسے اور کہاں سے منظور ہوتے چلے جا رہے ہیں؟ ہر سڑک پر دکان داروں نے آدھی دکان سجا رکھی ہے اور موٹرسائیکلیں دکانوں کے سامنے سڑک اور فٹ پاتھوں پر چڑھائی ہوئی ہوتی ہیں، جیسا کہ یہ اُن کی ذاتی جاگیر ہوں۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پورے ضلع کی سڑکوں کے اوپر اور مختلف چوکوں میں جگہ جگہ غیر قانونی گاڑیوں کے سٹینڈ اور رکشہ سٹینڈ بنے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس دونوں دیکھتے ہوئے بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں پر غیر قانونی لوہے کی راڈز اور ایکسٹینشنز لگے ہوئے ہیں۔ اُن گاڑیوں سے لٹکے کپڑوں کی وجہ سے اشارے نظر نہیں آتے اور کئی گاڑیاں، رکشے اور موٹرسائیکل بغیر لائٹ کے چل رہے ہیں، یا غیر قانونی اور نظر تباہ کرنے والی لائٹیں لگائی ہوئی ہوتی ہیں۔ مذکورہ لائٹیں دیگر بے چارے راہ گیروں کے لیے حادثات کا سبب بنتی ہیں اور ایک طرح سے موت کو دعوت دیتی ہیں، مگر ایسے لوگوں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوتی۔ ٹریفک پولیس ان سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش ہے۔ ٹریفک پولیس تو بس شریف اور بے ضرر موٹرکار والوں کو روک کر چالان کرتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ آپ کے علم میں نہیں……؟
جنابِ والا! بازاروں میں غیر معیاری خوراک بک رہی ہے، کارخانوں میں ملاوٹ کا زہر تیار ہو رہا ہے، مگر انتظامیہ خاموش ہے۔ غیر معیاری پاپڑ اور چپس کے کارخانے جن کے باعث عوام کی صحت کو خطرہ ہے، اُنھیں بند کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا فوڈ سیفٹی اور ماحولیات کے قوانین صرف کاغذوں پر لکھنے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہیں؟ کیا فوڈ سیفٹی افسران صرف کاغذی کارروائی میں موجود ہیں؟ کیا کبھی آپ نے کبھی ایسی فیکٹریوں کا دورہ کیا ہے، جو عوام کی صحت کے ساتھ کھیل رہی ہیں اور قاتلوں کا کردار ادا کر رہی ہیں ؟
جنابِ عالی! آپ کی بادشاہی میں گلیاں کچرے سے بھری ہیں، نالیاں اُبل رہی ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ترقیاتی منصوبے شروع تو ہوتے ہیں، مگر مکمل نہیں ہوتے۔ ادھورے کام چھوڑ کر ٹھیکے دار بل پاس کر کے مزے اور چرچے کر رہے ہیں۔ کیا اس بد دیانتی، چوری اور ڈاکے کی تحقیق ہوئی؟ کیا آپ نے کبھی جانچ کی کہ جو فنڈ سڑکوں اور راستوں کی تعمیر کے لیے جاری ہوتے ہیں، وہ کہاں خرچ ہوتے ہیں؟
جنابِ عالی! محکمۂ تعمیرات (C&W) کے اہل کاروں، ٹھیکے داروں اور نگرانوں کی کارکردگی کی نگرانی کون کرتا ہے؟ عوام کا پیسا کہاں جا رہا ہے ؟ کیا سڑکیں انجینئرنگ کے قوانین کے تحت بن رہی ہیں؟ کیوں سڑکیں بننے کے بعد چند مہینوں ہی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں؟ کیا اس میں بددیانتی نہیں؟ کیا آپ نے کبھی خود ان ٹھیکے داروں سے جواب طلبی کی، جنھوں نے سرکاری منصوبوں کو ذاتی فائدے کا ذریعہ بنایا؟
جنابِ والا! صحت کے نظام کا حال بھی خوف ناک ہے۔ ’’بی ایچ یوز‘‘ (BHUs)، ’’آر ایچ سیز‘‘ (RHCs) اور تحصیل ہسپتالوں کی کارکردگی کا عوام کو حقیقی طور پر فائدہ دکھایا جائے، اُن پر خرچ ہونے والے بجٹ کا ثبوت عوام کے سامنے رکھا جائے؛ بجٹ صرف رپورٹوں میں کیوں پیش ہوتا جا رہا ہے، عوام کی صحت میں کیوں نظر نہیں آتا؟ کیا آپ نے کبھی اچانک کسی ہسپتال یا بی ایچ یو کا دورہ کیا، تاکہ اصل صورتِ حال سامنے آئے؟ مریض دروازوں پر سسکتے ہیں۔ ادویہ ناپید ہیں، صفائی ندارد اور عملہ غائب۔ عوام کے علاج، صفائی اور تحفظ کی ذمے داری آخر کس پر ہے؟
تعلیم کا شعبہ بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ امتحانوں میں کھلے عام نقل جیسی قبیح حرکتیں ہو رہی ہیں اور ان کے سہولت کار ادارے اور امتحانی عملہ خود ہے، ایسے اسکولوں، کالجوں یا مراکز کو سزاوار قرار دے کر بند کیوں نہیں کیا جا رہا؟ کیا امتحانی نظام کی یہ بے وقعتی نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ دھوکا اور اُن کو بدعنوانی کی تربیت دینا نہیں؟
جنابِ عالی! پٹواریوں اور تحصیل داروں کی کارکردگی بھی کسی سے چھپی نہیں۔ زمینوں کے معاملات، انتقالات اور فرد کے اجرا کے لیے عام شہری کو کتنی ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک غریب آدمی پٹواری کے دفتر میں انصاف لینے جائے، تو وہ کتنی بار ذلیل ہوتا ہے؟ رشوت، سفارش اور دھمکیاں عام ہیں۔ کیا یہ سب آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہے؟
جنابِ والا! تحصیل دفاتر ہوں، یا بلدیاتی ادارے، ہر جگہ نااہلی، پروائی اور بددیانتی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر بجٹ خرچ ہو جاتا ہے، مگر عوام کو سہولت نہیں ملتی۔ کیا کبھی آپ نے ان منصوبوں کا آڈٹ کروایا؟ کیا کبھی کسی افسر کو عوامی شکایات پر سزا ملی؟
جنابِ والا! کیا آپ کے علم میں ہے کہ عوامی دفاتر میں عوام کے ساتھ رویہ کتنا ظالمانہ ہے؟ کلرک، پٹواری، افسران…… اُن کے لہجے میں تکبر، اُن کے کام میں تاخیر اور اُن کے رویے میں بددیانتی عام ہے۔ عوام کے لیے جو دفتر، خدمت گاہ ہونا چاہیے، وہ اذیت گاہ بن چکا ہے۔
ڈی سی صاحب! آپ صرف ایک انتظامی افسر نہیں، آپ پورے ضلع کے نگران ہیں۔ آپ پر نہ صرف قانونی، بل کہ اخلاقی اور شرعی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ عوام کی جان و مال، عزت، صحت اور انصاف کے تحفظ کی جواب دہی سب سے پہلے آپ پر ہے۔ اگر شہر میں بے نظمی ہے، اگر انصاف نہیں مل رہا، اگر دفاتر میں عوام ذلیل ہو رہے ہیں، اگر سڑکیں تباہ اور ہسپتال ویران ہیں، تو اس کا ذمے دار کون ہے؟
جنابِ والا! آپ کے پاس اختیار بھی ہے اور قانون بھی۔ آپ چاہیں تو ایک حکم سے تجاوزات ہٹائی جاسکتی ہیں، سڑکیں صاف ہوسکتی ہیں، ہسپتال سنبھل سکتے ہیں اور دفاتر میں نظم و ضبط قائم ہوسکتا ہے…… مگر کیا آپ نے کبھی سنجیدگی سے اس جانب توجہ دی ہے؟
جنابِ عالی! یہ سوالات تنقید کے لیے نہیں، اصلاح کے لیے ہیں۔ عوام اُمید رکھتے ہیں کہ آپ ان باتوں کو سنیں گے، سوچیں گے اور کچھ عملی اقدامات کریں گے۔ کیوں کہ اگر نظام ایسے ہی چلتا رہا، تو عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا…… اور جب عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے، تو حکومت کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔
ڈی سی صاحب، آپ کے پاس اختیار ہے ، عوام کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوسکتی ہیں…… بس شرط یہ ہے کہ آپ اپنی ذمے داری کو احساس کے ساتھ نبھائیں۔ عدل، دیانت اور خدمت کے اُصولوں پر عمل کریں اور ضلع سوات کو ایک بہتر، منظم اور پُرامن مقام بنائیں۔ عوام آپ سے یہی اُمید رکھتے ہیں۔
آپ کا خیر اندیش
ڈاکٹر عبید اللہ
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










