آئین، جسے دستور بھی کہا جاتا ہے، محض چند قانونی دفعات کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ یہ ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین طے پانے والا ایک ایسا مقدس سماجی معاہدہ ہے، جو اجتماعی زندگی کا خاکہ مرتب کرتا ہے۔ یہ کسی بھی قوم کی سیاسی سوچ، اس کے تاریخی ارتقا اور اس کی اجتماعی اُمنگوں کا عکس ہوتا ہے۔ آئین ہی وہ بنیادی دستاویز ہے، جو ریاست کے تین ستونوں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کی حد بندی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہ ہو۔ اس کی اہمیت اس بات میں پنہاں ہے کہ یہ انتشار، انارکی اور آمریت کے سامنے ایک آہنی دیوار کھڑی کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا ضامن بن کر اقلیتوں اور کم زور طبقات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ آئین ایک زندہ قوم کا ضمیر، اس کی شناخت اور اس کے استحکام کی بنیاد ہے۔
پاکستان کی تاریخ بدقسمتی سے آئینی اُتار چڑھاؤ سے عبارت رہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد طویل عرصے تک ایک متفقہ دستور کی تلاش جاری رہی۔ ابتدائی برسوں میں سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی کش مہ کش نے آئین سازی کے عمل کو شدید متاثر کیا۔ 1956ء میں پہلا آئین بنا، مگر جلد ہی فوجی مداخلت کی نذر ہوگیا۔ اس کے بعد 1962ء کا آئین آیا، جو صدارتی نوعیت کا تھا، مگر یہ بھی عوامی اُمنگوں پر پورا نہ اُتر سکا اور بالآخر ٹوٹ گیا۔ ایک طویل اور پُرآشوب دور کے بعد 1973ء میں ایک ایسا دستور تشکیل دیا گیا، جو درحقیقت پارلیمانی جمہوری نظام اور وفاقی اکائیوں کے مابین ایک مکمل قومی اتفاق رائے کا مظہر تھا۔ یہ آج تک ریاست کا بنیادی ڈھانچا ہے۔
1973ء کے آئین کو ایک لچک دار دستاویز کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا، تاکہ یہ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں متعدد ترامیم کی گئیں۔ ان ترامیم کی مختصر تفصیل کا جائزہ لیا جائے، تو ان کی نوعیت مختلف نظر آتی ہے۔ آٹھویں ترمیم کے ذریعے بعض آمرانہ اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا، جس نے پارلیمانی بالا دستی کو شدید نقصان پہنچایا، جب کہ 17ویں ترمیم بھی اختیارات کے توازن کو بگاڑنے کا سبب بنی۔ اس کے برعکس، 18ویں ترمیم جیسے تاریخی فیصلے بھی ہوئے، جس نے صوبوں کو زیادہ خود مختاری دی اور پارلیمان کی حاکمیت کو بہ حال کیا، یوں وفاق کو مضبوط کرنے کی بنیاد ڈالی۔ بعض ترامیم عدلیہ کی آزادی یا بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ضروری تھیں، جو دراصل آئین کو زیادہ مکمل اور فعال بنانے کے لیے کی گئیں۔
مگر، جب آئینی ترامیم کا مقصد کسی خاص فرد، خاندان یا سیاسی جماعت کو محض فائدہ پہنچانا، اُن کی مدتِ اقتدار کو طول دینا، یا ریاستی اداروں پر اُن کی گرفت کو مضبوط بنانا ہو، تو اس کے نتائج کسی زہریلی جڑ کی طرح ریاست کے پورے ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یہ اقدام صرف سیاسی نہیں، بل کہ ایک اخلاقی خیانت کے مترادف ہے، جو آئین کے بنیادی اُصولوں، یعنی غیر جانب داری، توازن اور قانون کی حکم رانی کو پامال کرتا ہے۔
ایسی مفاد پرستانہ ترامیم کے دور رس اثرات اور نتائج کئی سطحوں پر ظاہر ہوتے ہیں، جیسے:
٭ اولاً، جب حکم ران طبقہ آئینی عمل کو اپنے ذاتی مفادات کے تابع کر دیتا ہے، تو عوام کا جمہوریت پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ وہ آئین کو ایک ’’عوامی معاہدہ‘‘ کے بہ جائے ’’خواص کا آلۂ کار‘‘ سمجھنے لگتے ہیں، جس سے سیاسی پولرائزیشن بڑھتی ہے اور ریاستی اداروں کی قانونی حیثیت پر سوال اُٹھنے لگتے ہیں۔
٭ ثانیاً، آئین اداروں کے درمیان اختیارات کا نازک توازن قائم کرتا ہے۔ ذاتی مفاد کی ترمیم اس توازن کو بگاڑ کر طاقت کو ایک مرکز پر اکٹھا کر دیتی ہے۔ یہ عمل بالواسطہ طور پر آئینی آمریت کی راہ ہم وار کرتا ہے، جہاں قانون کی شکل میں ناجائز طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ جب طاقت ایک ہاتھ میں سمٹتی ہے، تو احتساب کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور بدعنوانی کی جڑیں گہری ہو جاتی ہیں۔
٭ ثالثاً، ایسی ترامیم بالآخر عدلیہ کے سامنے چیلنج بن کر آتی ہیں۔ عدالتیں جب ان ترامیم کی تشریح کرتی ہیں، تو انھیں آئین کے بنیادی ڈھانچے (Basic Structure) کے تحفظ کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ کش مہ کش ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان تصادم کا سبب بنتی ہے، جس سے ملک میں ایک مسلسل آئینی بحران کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
چناں چہ، آئین کی کتاب کو کھولنا ہمیشہ ایک انتہائی احتیاط کا متقاضی عمل ہے۔ اسے صرف قومی مفاد، عوامی فلاح اور نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ کسی فرد کی خواہش یا جماعت کے عارضی فائدے کے لیے اس میں چھیڑ چھاڑ کرنا دراصل ریاست کے مستقبل کو غیر یقینی اور مفادات کی جنگ میں اُلجھی ہوئی ایک کم زور اکائی بنا دیتا ہے، جس کی قیمت آنے والی نسلوں کو بھی چکانی پڑتی ہے۔ آئین صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں، بل کہ قوم کے اجتماعی مستقبل کا تحفظ ہے…… اور اس کی حرمت کو برقرار رکھنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










