حکومتِ خیبر پختونخوا نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ کرتے ہوئے صوبے کے 1500 سے زائد سرکاری تعلیمی اداروں کو آؤٹ سورس کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ ان اداروں میں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں کے ساتھ ساتھ متعدد گرلز اور بوائز کالجز بھی شامل ہیں۔ اس فیصلے کے لیے جو بنیادی دلیل پیش کی جارہی ہے، وہ بورڈ لیول پر جماعتِ نہم اور دہم کے نتائج کا پرائیویٹ اداروں کے مقابلے میں کم تر ہونا ہے۔ یہ امر حقیقت ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پرائیویٹ سکولوں نے مجموعی طور پر نتائج کے میدان میں نمایاں برتری حاصل کی ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ آخر سرکاری تعلیمی اداروں کے پاس اعلا تعلیمی اساتذہ، معقول تنخواہیں، بہتر تربیت اور مناسب انفراسٹرکچر ہونے کے باوجود وہ مطلوبہ نتائج کیوں نہیں دے پا رہے؟
٭ نتائج اور قابلیت کا تضاد:۔ اگر میٹرک کے امتحانات میں نمبروں ہی کو قابلیت کا معیار سمجھا جائے، تو پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ وہ طلبہ جو پرائیویٹ سکولوں میں نمایاں نمبر لیتے ہیں، اعلا سطح کے مقابلہ جاتی امتحانات جیسے ایم ڈی کیٹ اور کمیشن ٹیسٹ میں کیوں کام یاب نہیں ہوپاتے؟
دوسری طرف، انٹرمیڈیٹ کے بعد جب مقابلہ جاتی امتحانات کا مرحلہ آتا ہے، تو سرکاری اداروں کے طلبہ اکثر پرائیویٹ طلبہ پر سبقت لے جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ مسئلہ محض نتائج کا نہیں، بل کہ تدریسی ماحول، ذہنی ارتقا اور تدریسی طریقۂ کار کا ہے۔
٭ پرائمری سطح پر تعلیمی بنیادوں میں کم زوری:۔ پرائمری سطح پر اگرچہ اساتذہ کی تنخواہیں اور سکیل دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ایک اُستاد کو صرف ڈگری کی بنیاد پر منتخب کرتی ہے یا اُس کی تدریسی صلاحیتوں، بچوں کی نفسیات کے فہم اور پیشے کے ساتھ جذباتی وابستگی کو بھی معیار بناتی ہے؟ اکثر تعیناتیوں میں یہ پہلو نظر انداز ہوتا ہے۔
اسی طرح بہت سے علاقوں میں کلاس فور، عمارت، پینے کے صاف پانی، بجلی اور چار دیواری جیسی بنیادی سہولیات مکمل طور پر میسر نہیں۔ کئی سکولوں میں ایک ہی استاد کو بیک وقت پانچ جماعتوں کی تدریس کی ذمے داری اٹھانا پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں معیارِ تعلیم کا بلند ہونا عملاً ناممکن ہے۔
٭ سماجی رویّے اور نفسیاتی دباو:۔ بدقسمتی سے معاشرتی سطح پر بھی ایک منفی رویہ موجود ہے۔ ذہین اور معاشی طور پر مستحکم بچے پرائیویٹ اداروں میں بھیجے جاتے ہیں، جب کہ کم زور تعلیمی استعداد اور معاشی مسائل سے دوچار بچے سرکاری سکولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ امتیاز خود تعلیمی معیار کی ساخت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ سرکاری سکولوں کے اکثر طلبہ غذائی قلت، گھریلو مشقت، ہجرت شدہ یا متاثرہ خاندانوں سے وابستگی جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی کارکردگی کا پرائیویٹ طلبہ سے بہ راہِ راست مقابلہ غیر منصفانہ ہے۔
٭ انتظامی کم زوریاں اور سیاسی مداخلت:۔ سرکاری نظامِ تعلیم میں نگرانی کے لیے مختلف انتظامی ڈھانچے موجود ہیں، لیکن ان میں سے اکثر محض حاضری اور ڈیٹا رپورٹنگ تک محدود ہیں۔ اُستاد کی اصل تدریسی کارکردگی جانچنے کا کوئی موثر اور سائنسی میکانزم موجود نہیں۔ اگر کسی اُستاد کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، تو اکثر سیاسی دباو ایسی کسی بھی قسم کی کارروائی کو غیر موثر بنادیتا ہے۔
اس طرح پرنسپل کے پاس تدریسی نظم و ضبط بہتر بنانے کے اختیارات محدود ہیں۔ پاس اور فیل کے نظام میں بھی سیاسی و انتظامی دباو شامل ہوچکا ہے، جس سے معیارات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
٭ امتحانی نظام میں تضادات:۔ کوویڈ کے بعد تعلیمی کیلنڈر کی بے ترتیبی، کتابوں کی فراہمی میں تاخیر اور ایس ایل اُوز بیسڈ امتحانی نظام کے غیر تربیت یافتہ نفاذ نے تعلیمی معیار کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ سالانہ اول اور دوم امتحانات کے نظام نے نہ صرف مالی بوجھ بڑھایا، بل کہ طلبہ اور اساتذہ کی تیاری کے تسلسل کو بھی متاثر کیا۔
٭ حل اور پائیدار اصلاحات:۔ اگر حکومت واقعی تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں:
٭ استاد کی بھرتی میں نفسیاتی رجحان، تدریسی رویہ اور شخصیت کا جائزہ لازمی قرار دیا جائے۔
٭ پرنسپل کو انتظامی و تعلیمی سطح پر بااختیار بنایا جائے۔
٭ سیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے۔
٭ کمیونٹی اور والدین کی شمولیت کو فعال کیا جائے۔
٭ پرائمری سطح پر کلاس سائز اور ٹیچرز کی فراہمی ایک قابلِ عمل فارمولے کے تحت یقینی بنائی جائے۔
نتیجہ:۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی آؤٹ سورسنگ ایک انتظامی فیصلہ ضرور ہوسکتا ہے، مگر اصلاح کا عمل صرف عمارتوں اور نظم و نسق بدلنے سے ممکن نہیں۔ اصل تبدیلی اُس وقت آئے گی، جب ہم اُستاد، طلبہ اور نظام کے درمیان حقیقی رکاوٹوں کو سمجھیں اور ان پر سائنسی بنیادوں پر غور کریں۔
تعلیم کا معیار کسی بھی قوم کی ترقی کا تعین کرتا ہے اور اس کی مضبوط بنیادیں وہی رکھ سکتا ہے، جو اس نظام کو ایک مشن سمجھ کر چلائے، نہ کہ صرف ایک دفتری ذمے داری۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










