ضلع ملاکنڈ میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں، جب کہ ضلعی ہیڈکوارٹر سمیت کسی مقامی اسپتال میں ’’اے آر وی‘‘ (Anti Rabies Vaccine) دست یاب نہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملاکنڈ انتظامیہ ان واقعات کے تدارک کے لیے کوئی موثر اقدام کرتی نظر نہیں آتی۔
برسبیلِ تذکرہ، ملاکنڈ کے شہر ’’تھانہ‘‘ میں چند روز قبل آوارہ اور باولے کتوں کے پے درپے حملوں سے عوام میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک روز ایک کتے نے ایک معصوم بچے پر حملہ کر کے اُسے زخمی کر دیا۔ کتا اُس بچے کو اپنے منھ میں اُٹھا کر لے جانے لگا۔ محلے والوں نے بروقت کارروائی کر کے بچے کو بچا تو لیا، مگر کتے نے اُس کی ناک، چہرے اور جبڑے کو بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ اسی دوران میں ایک معصوم بچی (جسے بچے کی بہن بتایا جاتا ہے ) کو بھی کتے نے کاٹ لیا۔ اُس کے بازو کا گوشت اس قدر نوچ ڈالا کہ بازو کی ہڈی تک ظاہر ہوگئی، جب کہ سر سے بھی گوشت اُتار دیا۔ اُسی دن ایک دوسرے آوارہ کتے نے ایک خاتون پر حملہ کر کے اُس کے چہرے اور ناک کو چبا ڈالا، جس سے اُس کی داڑھ تک کو شدید نقصان پہنچا۔ تینوں زخمیوں کو تشویش ناک حالت میں تھانہ کے مقامی اسپتال پہنچایا گیا، مگر سہولیات کی عدم دست یابی کے باعث اُنھیں پشاور ریفر کر دیا گیا۔
چوں کہ بچہ اور خاتون دونوں غریب اور مالی لحاظ سے کم زور خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ علاج پر آنے والا لاکھوں روپے کا خرچ اُن کی استطاعت سے باہر تھا۔ تاہم تھانہ شہر کے نوجوانوں، بیرونِ ملک مزدوروں، فلاحی تنظیموں، پشاور میں تھانہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں اور کمیونٹی کی شخصیات نے علاج کا تمام خرچ اپنی جیب سے برداشت کیا۔ یہ خدمتِ خلق اور ایثار و قربانی کا جذبہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے، بل کہ انسانیت کے لیے ایک روشن مثال بھی ہے۔ کبر و نخوت، ظلم و جبر اور تشدد جیسے امراض کا علاج صرف خدمتِ خلق ہی سے ہی ممکن ہے۔
خدمتِ خلق سے محبت، شفقت، ہم دردی اور اخلاص کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد غیب سے فرماتا ہے۔ خدمتِ خلق ذاتی مفاد کے بغیر، اللہ کی رضا کے لیے کی جانے والی نیکی ہے، جو سماجی فلاح، معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی محبت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ اعلا انسانی عمل اسلام میں عبادت اور ایمان کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ یہی جذبہ انسانوں کے درمیان محبت اور احترام کے رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
احادیثِ نبویؐ میں خدمتِ خلق کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے دشمن کے حوالے ہی کرتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اُس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو کسی مسلمان کے رنج و غم کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے غم کو دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کا عیب چھپائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اس طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے فرمائے گا،اے ابنِ آدم! مَیں بیمار تھا، مگر تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا، اے رب! تو رب العالمین ہے، مَیں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ فرمائے گا،کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فُلاں بندہ بیمار تھا؟ اگر تو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے وہیں پاتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا،مَیں نے تجھ سے کھانا مانگا، مگر تو نے نہ دیا…… اگر تو اپنے بھائی کو کھانا دیتا، تو مجھے وہیں پاتا۔ مَیں نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تو نے نہ پلایا، اگر تو پانی پلاتا، تو مجھے وہیں پاتا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حوالے سے ملاکنڈ انتظامیہ سے جب مطالبہ کیا گیا کہ آوارہ کتوں کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں، تو اُن کا جواب تھا کہ سپریم کورٹ نے کتوں کو مارنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ نیز انتظامیہ نے عوام کو تسلی دی کہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر ویٹرنری اسپتال (شفاخانہ حیوانات) لایا جائے، جہاں اُنھیں ویکسین اور علاج فراہم کیا جائے گا۔ عوام حیران ہیں کہ یہ ذمے داری تو خود انتظامیہ کی ہے، جو اَب شہریوں پر ڈال دی گئی ہے، جب کہ عوام کے پاس وسائل ہیں نہ سہولیات۔ (یہاں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے 2019-2020ء میں کتے مارنے پر نہیں، بل کہ غیر انسانی طریقے سے ان کو تلف کرنے پر پابندی لگائی تھی، اور ’’ہیومن کنٹرول‘‘ کے احکامات دیے تھے۔)
انتظامیہ کے غیر سنجیدہ رویے سے مایوس ہوکر موضع تھانہ کے نوجوانوں نے خود دو روزہ ’’کتا مار مہم‘‘ شروع کی، جس میں سیکڑوں آوارہ کتوں کو ہلاک کیا گیا۔ تحصیل ناظم، ٹی ایم اُو اور ٹی ایم اے کے اہل کاروں نے مارے گئے کتوں کو اُٹھانے اور مناسب جگہ دفنانے میں عملی کردار ادا کیا، جو قابلِ تحسین ہے۔ تھانہ شہر کے نوجوان، پشاور میں تھانہ کمیونٹی کے ڈاکٹر، بیرونِ ملک مزدور اور اندرونِ ملک مقیم افراد ہمیشہ سے خدمتِ خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ یقینا ان کے اس جذبے کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










