ہم ایک عرصے سے یہی سنتے اور کہتے آئے ہیں کہ ملک میں کرپشن بڑھ گئی ہے۔ سیاست دانوں نے خزانے لوٹ لیے ہیں۔ فُلاں وزیر نے بیرونِ ملک جائیدادیں بنا لی ہیں اور فُلاں ایم این اے یا ایم پی اے دولت کے انبار میں کھیل رہا ہے۔
یہ باتیں درست ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف وہی لوگ مجرم ہیں، جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں…… یا اصل مجرم وہ ہیں، جنھوں نے ان کرپٹ چہروں کو وہاں تک پہنچایا؟ درحقیقت، قوموں کی بربادی وہاں سے شروع ہوتی ہے، جہاں عوام اپنی اجتماعی ذمے داریوں سے غافل ہو جائیں۔ ہم نے اپنے ووٹ کو، جو دراصل ایک مقدس امانت ہے، جذبات، برادری، پارٹی وابستگی، ذاتی تعلق یا وقتی مفاد کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے خود ہی ان ہاتھوں میں اقتدار کی چابی تھما دی، جو قومی خزانے کے دشمن اور ایمان و دیانت سے ناواقف ہیں۔ پھر جب یہی لوگ اقتدار میں آ کر دولت کے انبار جمع کرتے ہیں، انصاف کو ذاتی خواہشات کے تابع کرتے ہیں اور عوام کے حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہیں، تو ہم سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے ہیں، روتے ہیں، چیختے ہیں کہ ملک تباہ ہو گیا، نظام بگڑ گیا، کرپشن نے سب کچھ کھا لیا۔لیکن کیا ہم نے کبھی خود سے پوچھا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے کیسے؟ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
ہم میں سے ہر ووٹر ایک فیصلہ کن قوت رکھتا ہے۔ ایک ووٹ سے نیک اور ایمان دار قیادت بھی جنم لے سکتی ہے اور ایک ووٹ سے بددیانت اور کرپٹ نظام بھی پروان چڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنے ووٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں، تو پھر ہمارے حصے میں صرف سیاسی ناکامی نہیں، بل کہ اخلاقی اور دینی نقصان بھی آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ’’بدقسمت وہ لوگ ہیں، جو دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنی آخرت برباد کر دیتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد)
یہ ارشاد دراصل ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ہم اپنے وقتی مفاد، برادری یا تعلقات کے لیے ایسے افراد کو چنتے ہیں، جو نہ قوم کے خیرخواہ ہیں نہ خود اپنے ۔ ہم دوسروں کی دنیا بنانے کے چکر میں اپنی آخرت برباد کر دیتے ہیں۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ووٹ صرف ایک سیاسی حق نہیں، بل کہ شرعی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے۔ ایمان داری، اہلیت، خدمتِ خلق اور خوفِ خدا کو معیار بنائے بغیر ہم کبھی اچھے حکم ران منتخب نہیں کرسکتے۔ اگر آج ہم نے امانت میں خیانت کی، تو کل اپنے اعمال کی عدالت میں خود مجرم ٹھہریں گے۔قوموں کی تقدیر بند کمروں میں نہیں، عوام کے ووٹ بکسوں میں لکھی جاتی ہے ۔ ہم اپنی غفلت ترک کریں، اپنی آنکھیں کھولیں اور اس امانت کی حفاظت کریں، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ورنہ ہم روتے رہیں گے، چیختے رہیں گے، لیکن یہ شور و فغاں ہماری بداعمالیوں کے شور میں گم ہو جائے گا۔
ملک کی اصلاح اُس وقت ممکن ہے، جب عوام اپنے ضمیر کے مطابق، خوفِ خدا کے ساتھ اور دیانت داری سے ووٹ ڈالیں۔ اگر ہم خود ٹھیک ہوجائیں، تو نظام خود بہ خود درست ہو جائے گا۔ کیوں کہ غلط قیادت کا سب سے بڑا سہارا، عوام کی غفلت ہی ہے۔ آج اگر ہم چاروں طرف نگاہ دوڑائیں، تو ہر زبان پر ایک ہی فریاد سنائی دیتی ہے کہ ملک تباہ ہو گیا، نظام بگڑ گیا، ادارے ناکام ہوگئے ، کرپشن نے جڑیں مضبوط کر لی ہیں اور انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب سچ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہوا کیسے؟
کیا صرف حکم ران ہی اس تباہی کے ذمے دار ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے بگاڑ میں جہاں حکم رانوں اور سیاست دانوں کا کردار ہے، وہاں عوام بھی اس تباہی میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے اپنی ذاتی غفلت، وقتی مفادات اور اندھی وابستگیوں کے باعث نظام کو خود اپنے ہاتھوں برباد کیا ہے۔ ہم رشوت دینے والے ہیں، سفارش مانگنے والے ہیں، قانون توڑنے والے ہیں اور پھر انھی حرکتوں کے بعد فریاد بھی کرتے ہیں کہ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ ہم ووٹ امانت سمجھ کر نہیں، بل کہ رشتہ داری، برادری یا پارٹی کے نام پر ڈالتے ہیں اور پھر یہی ووٹ کرپشن کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جب نااہل، خودغرض اور بے ایمان لوگ اقتدار میں آتے ہیں، تو اس کے ذمے دار ہم خود ہوتے ہیں۔ ہم اپنی ذاتی مصلحت کے لیے کسی کرپٹ شخص کی حمایت کرتے ہیں، سرکاری وسائل کا غلط استعمال برداشت کرتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ نظام کیوں نہیں بدلتا۔ جب قوم خود کرپشن کو چالاکی اور جھوٹ کو قابلیت سمجھنے لگے، تو تباہی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
درحقیقت، قوموں کی تباہی صرف حکم رانوں سے نہیں آتی، بل کہ اس وقت آتی ہے، جب عوام خاموش تماشائی بن جائیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔‘‘ (سورۃ الرعد: 11)
اگر ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے ، سچائی کو ترجیح نہیں دیتے اور دیانت دار قیادت کو آگے نہیں لاتے، تو پھر یہ شکوہ کرنا بے معنی ہے کہ ملک تباہ کیوں ہو رہا ہے۔ ملک صرف حکومتوں سے نہیں بنتے، قوموں کے کردار سے بنتے ہیں۔ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ہمیں ووٹ، امانت اور انصاف کو مقدس فریضہ سمجھنا ہوگا۔ جب تاریخ لکھی جائے گی، تو حکم رانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا نام بھی ملک کی تباہی کے شریک مجرموں میں شامل ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










