جنگ کے سائے میں زندگی

Blogger Ikram Ullah Arif

غزہ کے زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوئے تھے کہ امسال بھارت نے پاکستان پر حملہ کرکے مزید زخم لگا دیے۔ نتیجتاً جو کچھ ہوا، وہ کہانی آپ خود جانتے ہیں…… مگر اس معاملے نے اہلِ پاکستان کو مجبور کیا کہ کچھ عرصے کے لیے غزہ کو بھول کر اپنی حالت پر توجہ مرکوز کریں۔
ہماری مشرقی سرحد پر جنگ بندی تو ہو چکی ہے، مگر بھارت اپنی سبکی بھول نہیں سکا۔ اسی لیے کئی دنوں سے پاکستانی سرحد کے قریب فوجی مشقیں جاری ہیں۔ اس سے پاکستانی عوام بہ ظاہر لاتعلق نظر آ رہے ہیں، مگر وطن کے دفاع پر مامور ادارے ہائی الرٹ پر ہیں اور پاکستانی فضائی حدود میں تبدیلیوں کے لیے "NOTAM” (یعنی A Notice to Airmen) جاری کیے گئے ہیں۔ چوکس رہنا مجبوری ہے۔ کیوں کہ کسی بھی غلط فہمی کا فائدہ دشمن کو مل سکتا ہے۔
دلی تمنا تو یہی ہے کہ ہر پڑوسی کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں اور جنوبی ایشیا سمیت اس خطے کے لوگ بھی یورپیوں کی طرح خوش حال، فعال اور آزادانہ زندگی گزار سکیں، مگر کچھ خبطِ عظمت، کچھ عاقبت نااندیشی اور کچھ توسیع پسندانہ عزائم نے یہاں کے حکم رانوں کو مقید کیا ہوا ہے۔ نتیجتاً عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ خیر،بھارت کے ساتھ ہم عادی ہو چکے ہیں؛ جنگیں لڑ چکے ہیں، وہاں کی بھڑکیں بھی دیکھ چکے اور اپنی کمی و کوتاہیوں کا بھی ادارک ہے۔ لہٰذا امسال کے محدود ترین جھڑپوں نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا اور بھارت کو اندازہ ہوچکا کہ پاکستان مالدیپ یا نیپال ہرگز نہیں۔
مگر غزہ اور اپنے یہ زخم کیا کم تھے کہ پاکستان اور افغانستان کے مایہ ناز دہشت گردوں نے نفرتوں کو ایسی ہوا دی کہ معاملہ باقاعدہ سرحدی جھڑپوں تک پہنچ گیا۔ دونوں جانب نقصانات ہوئے۔ سرحد تاحال بند ہے، جس سے پاکستان کو کم لیکن افغانستان کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے…… مگر ضد یہ ہے کہ دونوں جانب صاحبِ اختیار ہیں؛ جذباتیت ایسی ہے کہ فہم و فراست کھو دی گئی، معقولیت اور معروضیت سب کچھ معدوم ہوچکا ہے۔ ایسے میں حقائق تسلیم نہیں کیے جاتے، بل کہ خود تراشیدہ خیالات کو حقائق ثابت کرنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔
سرحدی جھڑپوں نے دونوں کو مذاکرات پر مجبور کیا، تو جنگ بندی ہوئی۔ بات چیت شروع ہوئی۔ پھر فریقین اپنے ہی بیانات پر اَڑے رہے، تو تعطل پیدا ہوا اور اب کہیں جا کر میزبانوں (ترکیہ و قطر) کی مہربانی سے امن کی امید پیدا ہوچکی ہے۔ دونوں ملکوں میں امن، خوش حالی اور باہمی احترام سب کے لیے اچھا ہے، مگر یہ کیسے قائم ہو گا؟ یہ اربوں ڈالر کا سوال ہے، جو تاحال جواب طلبہے۔ بہ ہرحال جب ہماری مشرقی سرحد پر فوجی مشقیں جاری ہیں، تو ایسے میں مغربی سرحد پر جنگ بندی کا قائم ہونا بہترین حکمتِ عملی ہے۔
دعا ہے کہ مغربی سرحد امن اور ترقی کی سرحد بنے، کیوں کہ دونوں جانب مسلمان ہی بستے ہیں، جو عقیدے کے علاوہ بھی کئی رشتوں میں منسلک ہیں۔ یہ منظر کبھی اور کہیں بھی خوش گوار نہیں ہوتا کہ مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرنا شروع کرے۔ یہ انداز غیر مناسب ہے، جب دونوں جانب سے گولہ باری کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے ہوں۔ ویسے بھی آپس کی قتل و غارت گری نے مسلمانوں کا برا حال کر دیا ہے۔ لیبیا، شام، اردن، عراق، لبنان اور سوڈان میں مسلمان نے خود مسلمان کا کیا حال کیا ہے؟
علاوہ ازیں یہ جو سوڈان سے تازہ ترین خبریں آرہی ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ معدنیات اور وسائل کے حصول کے لیے آپس میں یہ خوں ریزی دنیا بھر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ کیوں کہ ہر مسلمان ملک کے اپنے مسائل اور مفادات ہیں۔ سوڈان میں بھی ایک فریق کو متحدہ عرب امارات کی مبینہ مالی اور عسکری حمایت حاصل ہے، جس سے مسلمان آپس میں قتل ہو رہے ہیں۔ یوں مجموعی طور پر مسلمان ممالک میں اس وقت ایک افراتفری کی صورتِ حال ہے۔
ایسے میں ہماری دعا ہے کہ پیارے پاکستان میں امن اور خوش حالی رہے۔ کیوں کہ غزہ، کشمیر اور باقی مظلومین کے لیے تب ہی پُراثر آواز اٹھائی جاسکتی ہے، جب یہاں کے اپنے لوگوں کو تحفظ اور جینے کے حقوق حاصل ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے