جوں ہی اس مضمون کو لکھنا شروع کیا، تو میری فکر کئی جہتوں میں بٹ گئی۔ مَیں فلسفے، سیاسیات، سماجیات، بشریات اور نظریات میں منتشر ہوگیا۔ پھر سوچا کہ اس حصے کو چھوڑ کر سیدھا اُس تازہ مسئلے اور اس سے جڑی کچھ تاریخی باتیں قارئین کے سامنے رکھوں، جس نے حالیہ مہینوں اور گذشتہ چند دنوں سے ہمارے ہاں ایک کثیر تعداد میں لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو بے چین کررکھا ہے۔ دراصل مسئلہ بالائی سوات میں توروالی پٹی کے مغربی (دائیں) طرف کے سبھیباشندوں سے متعلق ہے۔ بہ راہِ رست اس مسئلے پر آنے سے پہلے الفاظ قوم، نسل، ذات پات اور تقسیم کی وضاحت لازمی ہوگی۔
٭قوم (کھام) اور نسل کیا ہیں؟
لفظ قوم اور اس سے مشتق الفاظ پاکستان میں شاید سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ اس لفظ ’’قوم‘‘ کے ہماری سیاست اور سماج میں مختلف معنی لیے جاتے ہیں۔ قبیلہ بھی خود کو قوم کہتا ہے، کسی چھوٹے گاؤں کے لوگ بھی اجتماعی طور پر خود کو قوم کہتے ہیں؛ ایک ہی زبان کے بولنے والے بھی قوم کہلاتے ہیں؛ ایک مذہب کے پیروکاروں کو بھی قوم کہا جاتا ہے اور اسی طرح کسی ریاست کے شہریوں کو بھی اجتماعی طور پر قوم کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر کسی گاؤں مثلاً: رامیٹ یا درولئی والے خود کو قوم کہیں گے اور جس میں کئی قبائل شامل ہوں گے…… یعنی صرف جغرافیہ یا علاقے/ وطن کی بنیاد پر۔ اسی طرح مثلاً: رامیٹ کے اندر رہنے والے مختلف قبیلے جیسے مینگوڑ، بیجور وغیرہ بھی خود کو الگ الگ قوم کہیں گے۔ یعنی نسب/ شجرے کی بنیاد پر چاہے حقیقی ہو یا خیالی۔ یعنی کسی ایک حقیقی یا خیالی جدِ امجد کی بنیاد پر کوئی قبیلہ خود کو قوم کہے گا۔ اسی طرح مقامی طور پر کسی قدیم سیاسی یا سماجی اشتراک کی وجہ سے بھی لوگ خود کو الگ قوم کہتے ہیں، جیسے نریڈ قوم، بھون (بٹ) قوم وغیرہ۔ لوگ مشترک زبان کی بنیاد پر بھی قوم بن جاتے ہیں۔ جیسے توروالی قوم، کوہستانی قوم، پشتون، سندھی وغیرہ۔ آپ نے ایسے الفاظ سنے ہوں گے کہ فُلاں بندہ ہماری طرح زبان بولتا ہے، تو ہمارا بھائی ہے۔ ایک اور طاقت ور تصور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کا قوم بننا ہے۔ حقیقی ہو یا خیالی، لیکن لوگ مذہب کی بنیاد پر بھی ایک قوم بن جاتے ہیں۔ جیسے اسلامی سیاسیات و سماجیات میں امت کا تصور۔ قوم کا ایک ریاستی/شہری تصور بھی ہے، جیسے پاکستانی، ایرانی، افغانی۔ اقبال نے ملک کی بنیاد پر قومیت کے یورپی تصور کے خلاف کہا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
انسان کا پورا ماضی اور حال گواہ ہیں کہ انسانوں نے اپنے بیچ مختلف طریقوں اور بہانوں سے تفریق قائم رکھی ہے، جن میں رنگت، نسل، جنس، زبان، ثقافت، مذہب اور علاقہ نمایاں ہیں۔ یہ فرق سماجی طور پر تشکیل پاتا ہے، ماسوائے جنس اور رنگت کے جو کہ قدرتی ہوتے ہیں۔ تاہم ان اختلافات کی بنیاد پر کسی کو مختلف کردار، خصوصیات اور اونچ نیچ سے نوازنا ایک سماجی عمل ہے، جس کو انسانی معاشرے نے تشکیل دیا ہوتا ہے۔ مطلب عورت کو قدرت نے ایسا بنایا، لیکن اس کو کم تر یا برتر کا کردار اسی سماج نے دیا۔ اسی طرح انسان کا سفید، سیاہ اور رنگین ہونا بھی قدرتی امر ہے۔ تاہم ان خصوصیات کی بنیاد پر کسی کو کم تری یا برتری کا رتبہ دینا خالص انسانی سماج کا عمل ہے۔ نسل بھی اسی طرح ہے، مگر اس کے ساتھ کم نسل، بد نسل، کم تر نسل وغیرہ کی خصوصیات کو جوڑنا انسانی سماجی عمل ہے۔ قدرت نے کسی کو رنگت، نسل اور جنس کی بنیاد پر کم تر یا برتر نہیں بنایا۔ یہ تصورات انسانی سماج اور اس میں مخل خفی و جلی، ثقافتی و سیاسی طاقت نے دیے ہیں۔
قارئین! یہ لمبی تمہید اس لیے رکھی گئی، تاکہ ہمارے حالیہ مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اب آتے ہیں مسئلے کی طرف:
بالائی سوات کی وادیوں سینکأن/ بحرین اور بشیگرام/ چیل وادی میں توروالی زبان بولنے والے سیکڑوں قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ موجودہ توروالی پٹی کے بحرین والے علاقے میں دریائے سوات کے آر پار زمین، جنگلات اور شاملات کے دو طریقے، دؤتر اور دھیمی، پائے جاتے ہیں۔ دونوں ویش نظام سے متعلق ہیں۔سولھویں صدی میں یوسف زئیوں کی آمد کے بعد سوات میں زمین کی تقسیم کا جو رواج تھا، اُس کو ’’گردشی ویش‘‘ کہا جاتا تھا، جس میں کوئی زمین کسی خاص مدت جیسے 5 یا 10 سال تک یوسف زئی کے ایک خاندان کے پاس رہتی اور اس مدت کے بعد وہ کسی اور خاندان کو دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حساب کتاب زبانی یا تحریری صورت میں اُن کے ایک عالم بزرگ، شیخ ملی، کے پاس ہوتا تھا، جو سولھویں صدی میں گزرا ہے۔ شیخ ملی کے اُس رجسٹر کو ’’دفتر‘‘ کہا جاتا تھا، جو بگڑ کر ’’دؤتر‘‘ بن گیا۔ اُس وقت جب سوات کی زمینوں کو یوں مقامی آبادی سے چھین لیا گیا، تو اُن کو بے دخل کردیا گیا، یا پھر غلام اور دھقان/دہگان بنایا گیا۔ ان لوگوں کے پاس زمین نہیں رہی، لہٰذا شیخ ملی کے دفتر میں اُن کے نام کے ساتھ کوئی زمین نہیں تھی، جس کو پشتو میں ’’تش تورے‘‘ یعنی کوئی لکھ موجود نہیں، کہا گیا، جو بعد میں بگڑ کر ’’شاتورے‘‘ ہوگیا اور اب بھی کئی لوگ اس لفظ کو استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح شیخ ملی کے حساب کتاب میں کسبی اور فن کار لوگوں کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا اور ان کا گزر بسر کا انتظام کسی خان یا گاؤں کے ذمے ہوتا تھا۔ البتہ جو لوگ یوسف زئیوں کے ساتھ مذہبی تعلیمات لے کر آئے تھے، یعنی مذہبی پیش وا تھے، اُن کو سیرئی کے نام سے حصہ دیا جاتا تھا۔
آیا ہماری توروالی پٹی میں شیخ ملی کا رواج نامہ موجود تھا کہ نہیں، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ تاریخ میں اس حوالے سیکچھ نہیں ملتا۔ سوات میں زمین اور جنگلات سے متعلق سوات کے معروف مورخ ڈاکٹر سلطان روم بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔ ہمارے ہاں اپنی طرح کا ویش تھا…… یعنی جنگلات، گاؤں، زمینیں اور شاملات مختلف قبائل کے نام ہوتے تھے، لیکن اس طرح سخت گیر نہیں تھا اور لوگ چراگاہوں اور شاملات کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے تھے۔ لگتا یوں ہے کہ ہمارے ہاں آبائی نظام میں ’’دھیمی‘‘ کا رواج رہا ہو۔ تقسیم کا یہ رواج نامہ اَب بھی ہماری پٹی میں ’’دؤتر‘‘ سے زیادہ مستعمل ہے۔ دریا کے بائیں کنارے تو پورا موجود ہے، تاہم دائیں کنارے جہاں اس ’’دؤتری تقسیم‘‘ کو 64 سے موسوم کیا جاتا ہے، وہاں بھی مختلف گاوؤں کی سطح پر گاؤں اور ملحقہ شاملات و جنگلات اُن گاؤں والوں کے ہوتے ہیں، جو اُس کو گاؤں کی سطح پر کسی خاص حساب (روپیا کی اکائی) کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں اور کوئی گھرانا اس حساب سے باہر نہیں رہتا۔
جب ریاستِ سوات بننے لگی، تو آہستہ آہستہ ریاست نے شیخ ملی کے ’’گردشی ویش‘‘ کو ’’دؤتر ی نظام‘‘ کے تحت مستقل کردیا۔ ریاست نے نیچے سوات میں بااَثر لوگوں کو زیادہ زمینیں دیں، بل کہ اُس وقت کے حکم رانوں نے اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کے لیے کئی لوگوں کو باہر سے بلا کر اُن کو بھی وسیع و عریض زمینیں دیں۔ چوں کہ ریاستِ سوات کے پہلے حکم ران کے والد ایک دینی بزرگ تھے اور اُنھوں نے سوات میں باقاعدہ ریاستی نظام کی بنیاد ڈالنے اور لوگوں کو متحد کرنے اور امن کے لیے اپنا مذہبی اثر و رسوخ استعمال کیا، جس کی بہ دولت کئی مذہبی پیش واؤں اور پیروں کو ’’سیرئی‘‘ کے نام سے زمین، جنگلات اور بانڈاجات کی صورت میں تحفوں سے بھی نوازا گیا۔
روایتی طور پر توروالی پٹی کے سینکأن/ بحرین والے علاقے میں دائیں طرف (مغربی پٹی) میں پورا علاقہ چار قبائلی گروہوں [نرے (نریڈ)، کیو (کیوڑ)، بھووُن (بٹ) اور بیسے (باسیٹ)] میں 16 روپے فی گروہ میں تقسیم رہا ہے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ان چار گروہوں کے ہر گروہ میں چھے چھے ذیلی قبیلے شامل ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ چارگروہ نسل سے زیادہ قدیم سماجی و سیاسی یا لشکری اشتراک کی بنا پر بنے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ چار گروہ اوپر جاکر روایتی طور پر دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ ایک جانب ان تینوں گروہوں (باسیٹ، کیوڑ اور بٹ) کو مجموعی طور کووے کہا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف چوتھے گروہ کو نریڈ کہا جاتا ہے۔ چوں کہ حقیقتاً اس پورے علاقے میں گاؤں گاؤں سے منسلک شاملات اور جنگلات انھی گاوؤں میں تقسیم ہیں اور وادیِ درال میں بھی بانڈا جات ان اقوام کے نام سے تقسیم ہیں، لہٰذا تنازع لائیکوٹ، پشمال اور بحرین کے سامنے مغرب کی طرف پہاڑ کے ایک حصے پر باقی ہے۔ لائیکوٹ اور پشمال میں یہ تنازع ان چار گروہوں کے آپس میں نہیں، بل کہ ان کے اور وہاں مقیم گوجر بھائیوں کے بیچ ہے۔ تاہم بحرین کے سامنے اس پہاڑی ٹکڑے پر یہ تنازع ان دو بڑے گروہو ں (نرے اور وے) کے بیچ ہے۔ اسی طرح درال وادی میں شیلیدر پر تنازع نریڈ اور وہاں مقیم گوجر برادری کے بیچ ہے۔ بتاتا چلوں کہ یہ سارے تنازعات عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔
مقامی طور پر ان سب تنازعات کے حل کے لیے کوششیں ہوتی رہی ہیں، تاہم ابھی تک کوئی فیصلہ کن بات چیت اور نہ ایسی کوئی پیش رفت ہی ہوئی ہے۔
اس سال ستمبر میں جب لائیکوٹ (ھوگور) اور آسریت والوں کے بیچ لکڑی پر تنازع تشدد کا رُخ اختیار کرگیا اور تصادم کے نتیجے میں ایک قتل بھی ہوگیا، تو اس کے بعد بحرین میں درجِ بالا چار گروہوں (نریٹ، بٹ، باسیٹ اور کیوڑ) کا ایک مشترکہ جرگہ منعقدکیا گیا، تاکہ لائیکوٹ اور پشمال پر کوئی لائحۂ عمل بنایا جاسکے۔ اس بڑے جرگے کے اہم اعلامیے میں کسی قسم کے تشدد سے گریز، قانون کا سہارا اور 64 کے حساب میں اس دائیں جانب علاقے (مشکون باٹ تا قاروندوکے) ان توروالی بھائیوں کو حصہ دینا تھا، جن کو عموماً ریاستِ سوات نے اس طرح کے ’’دؤتر‘‘ سے باہر رکھا ہے۔ اس بڑے جرگے میں یہ بھی کہا گیا کہ ان چار قبائلی گروہوں کا ایک نمایندہ جرگہ/ کمیٹی تشکیل دی جائے، تاکہ وہ غور و خوض اور طویل مشاورت کے بعد لائیکوٹ اور پشمال کے بارے میں گوجربھائیوں کے ساتھ کوئی جامع لائحۂ عمل طے کرے ۔
لائیکوٹ اور پشمال کے بارے میں کسی بھی مشاورت میں ان چار بڑے گروہوں (کیو، بیسے ، نرے اور بھون) کی بھرپور نمایندگی ہونی ضروری ہے۔ کوئی ایک گروہ یا قبیلہ اس پر کسی فیصلے کا مجاز نہیں ہوسکتا۔
گذشتہ کئی مہینوں سے شیلیدر درال کے تنازع پر بحرین کے نریڈ اور شیلیدر کی گوجر برادری کے بیچ اس تنازع کے حل کے لیے ثالثی جاری ہے، جس کی سہولت کاری علما کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں بحرین میں نریڈ قبائل کا ایک جرگہ ہوا، جس کی حلف برداری کا ایک مختصر ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر دیا گیا۔ اس ویڈیو کلپ کی وجہ سے کئی لوگوں میں بے چینی بڑھ گئی کہ کہیں یہ جرگہ کسی نسلی تفاخر، الگ شناخت ، توروالی برادری کو تقسیم یا الگ تھلگ ہونے کے لیے تو نہیں؟ اس جرگے کی تفصیلات کا علم نہیں، تاہم اگر نریڈ کے بیچ ایسی کوئی مشاورت صرف شیلیدر تنازع پر ہورہی ہے، تو بہتر ہے کہ وہ کریں اور اس پر دیگر قبیلوں کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ جو لوگ شیلیدر میں جنگلات اور شاملات میں حق دار ہیں، اُن کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے کسی فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں، جو ان کی دانست میں درست نہیں۔ البتہ لائیکوٹ اور پشمال تنازع کسی ایک قبائلی گروہ کا نہیں۔ اس پر چاروں بڑے گروہوں کو مشاورت کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔
قارئین! مَیں ایسے مسائل کو چھیڑنے سے خود کو دور رکھتا ہوں، لیکن نوجوانوں میں بے چینی بڑھنے کی وجہ سے ان کے لیے لکھ رہا ہوں، تاکہ ان مسائل سے وہ بھی آگاہ ہوں۔ میری بات حتمی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ان مسائل پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔ ایسی ایک حقیق جاری بھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










