بہ قول شخصے: ورثہ کی حفاظت تاریخ، شناخت اور تہذیب کی حفاظت ہوتی ہے۔
جرمنی کے میونخ یونیورسٹی سے گندھارا اور گندھاری زبانوں (پراکرت کے لہجوں) کے عالم سوات تشریف لائے تھے۔ 2023ء میں اُن کو ای میل بھیجا تھا۔ اُن کے سیکریٹری نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن خدا کی کرنی کہ صاحب گذشتہ دنوں سوات میں ’’اطالوی آرکیالوجیکل مشن‘‘ (Italian Archaeological Mission) کے 70ویں سال گرہ پر خود تشریف لائے اور ہمیں بھی اس تقریب میں جانا ہوا۔ یہ صاحب دو دہائیوں سے پوری دنیا میں گندھاری مخطوطات (Inscriptions) کو تلاش کر رہے ہیں، جو خروشتی رسم الخط میں چٹانوں پر کندہ کیے گئے ہیں۔ اُن کو پالی، سنسکرت، پراکرت اور گندھاری زبانیں آتی ہیں۔ اُن صاحب کو خروشتی پڑھنا بھی آتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے ایک ساتھی سے مل کر گندھاری زبا ن کی ایک آن لائن لغت بھی مرتب کی ہے، جس میں 10 ہزار الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ داردی اور گندھاری زبانوں میں اشتراک نمایاں ہے۔
ایک عالم تھامس برو کے ایک 1937ء کے ایک مقالے کے مطابق داردی زبانوں میں توروالی، گندھاری زبان کی سب سے قریب زبان ہے۔ بدقسمتی سے 1937ء کے بعد کسی ماہر نے ان دو زبانوں کے مابین تعلق پر مزید تحقیق نہیں کی۔ اُس جرمن ماہرِ گندھارا کو ہماری تلاش تھی۔ ہم سے مل کر اُن کو خوشی ہوئی اور ہمیں اُن سے مل کر خوشی ہوئی کہ ہمیں تو اُن ہی کی تلاش تھی۔
مینگورہ سے اگلے دن اُنھوں نے بحرین اور کالام کا دورہ کرنا چاہا۔ ہم نے حسبِ معمول خیر مقدم کیا۔ اس دورے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک ہمارے ساتھ رہ کر توروالی ٹیکسٹ کو سمجھنا اور دوسری اہم وجہ مٹلتان جانا تھا۔ اس کی وجہ وہ مضمون تھا، جو 1996ء میں پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے لکھا تھا۔ اس مقالے میں ایک جگہ کالام کے شمال مغرب میں چند کلومیٹر دور ایک گاؤں گلو ڈھیرئی میں ایک مسجد کی پچھلی دیوار کی طرف ایک چٹان پر کچھ لکھائی/ کندہ کاری تھی۔ صاحبِ مضمون کے اُس نام اور جغرافیہ میں فرق تھا۔ کیوں کہ گلو ڈھیرئی کا ایک گاؤں صوابی میں بھی ہے۔ خیر، اطالوی مشن سے مزید معلومات لینے سے پتا چلا کہ یہ علاقہ مٹلتان میں ہے۔ مہوڈنڈ سے واپسی پر مٹلتان میں رُکے اور کئی لوگوں کو جمع کرکے سب محلوں کے نام پوچھ لیے۔ کوئی محلہ گلو ڈھیرئی سے موسوم نہیں تھا۔ محلہ گیل چم ذہن میں آیا، لیکن وہاں 1996ء میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ لہٰذا کافی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ جس مسجد کا ذکر ہورہا ہے، وہ مٹلتان کی بڑی مسجد ہے۔
اگلی صبح وہاں گئے۔ مسجد کی جدید تعمیر کے بارے میں پوچھا، تو 30 سال پرانی بات بتائی گئی۔ لہٰذا مذکورہمضمون کا وقت بھی وہی بنتا تھا۔ جس چٹان کا ذکر ہورہا تھا، اُس کو توڑا گیا ہے اور اُس کے پتھروں کو گھروں اور مسجد کی دیواروں میں لگادیا گیا ہے۔ باقی ماندہ چٹان ایک گھر کی بنیاد میں آئی ہے۔ اس مخطوطے کو نہیں دیکھ پائے کہ اُسے مٹادیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے مسجد کے اوپر والے علاقے میں کچھ ایسے قدیم آثار کا ذکر کیا، تاہم کسی نے خزانے کی تلاش میں پوری جگہ تہس نہس کردی تھی۔
مَیں نے اُس جرمن والے ساتھی کو کہا کہ مٹلتان ہی ایسی جگہ ہوسکتی ہے، جہاں بدھ مت کے یہ آثارمل سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ پلوگاہ نالے کے قریب ہے، جو اوپر جاکر تانگیر، داریل اور گلگت کے کارگاہ نالے سے ملتا ہے اور داریل و کارگاہ نالہ بدھ مت کے آثار کے لیے مشہور ہے۔ یہ قدیم راستہ تھا۔ پلوگاہ کے سوات والی طرف سے مٹلتان کو ایک دن کا پیدل سفر ہے اور یہاں سے پھر تیرات کو ایک دن اور وہی سے نچلے سوات کو ایک دن کا۔ تیرات میں بدھ مت کے آثار تھے، بل کہ ایک پتھر پر بدھا کے پاؤں کا نشان بھی تھا، جس کے ساتھ کچھ لکھا گیا تھا۔ اُس کتبے کو کافی بہتر حالت میں سوات میوزیم میں اطالوی مشن نے محفوظ کیا ہے، جب کہ تیرات میں بدھ مت کا سٹوپا مٹ چکا ہے۔
ہمارے توروال اور کالام پٹی میں بدھ مت کے آثار ہیں، جو کھدائی کرتے وقت برتنوں کی صورت میں اب بھی ملتے ہیں۔ چٹانوں پر کندہ شدہ خروشتی لکھائی بھی ہوگی، لیکن اس کی تلاش کسی نے نہیں کی۔ ہوسکتا ہے کہ پلوگاہ نالے میں اوپر ایسی چٹانیں مل جائیں۔ اس کے علاوہ درال وادی میں بھی ایسے نشانات مل سکتے ہیں۔ اس کے لیے سروے کی ضرورت ہے۔ درال جھیل جس کو ہم توروالی میں ’’ڈھأن کأش‘‘ کہتے ہیں، جو پشتو میں ’’ڈنڈ غاڑہ‘‘ ہوا اور بدھ مت کی تحریروں میں ’’ڈھان کُشا‘‘ مشہور ہے۔ ڈھان کُشا کے جغرافیے کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں، تاہم سوات میں 1955ء کو اطالوی مشن کے بانی ڈاکٹر ٹوچی کے مطابق بدھ مت کے آخری پیش وا پدما سمباوا کی جائے پیدایش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جگہ یہی درال جھیل تھی، اسی لیے اس کو ڈھان کُشا لکھا گیا ہے۔
خیر، اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ماضی کے آثار نمایاں تھے، جس سے ہمارے ورثے اور تاریخ کے بارے میں پتا چلتا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ہماری بے خبری کی وجہ سے یہ آثار محفوظ نہیں رہے۔ ہمارے توروال علاقے میں گھروں، مساجد اور دیروں پر لکڑی کی کندی کاری سب سے نمایاں تھی۔ 1926ء میں معروف عالمِ ارضیات و ثقافت ’’آریل سٹئین‘‘ (Aurel Stein) نے لکھا تھا کہ پورے شمالی پاکستان سمیت ترکمانستان تک لکڑی کی کندہ کاری میں توروال کی کندہ کاری سب سے اعلا اور نمایاں ہے۔ آج ہمیں ایسے کوئی آثار نہیں ملتے۔ بحرین میں دیرہ فراموش اُستاد کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آئے گی، جہاں یہ قدیم کندہ کاری اب بھی موجود ہو۔ سبھی جگہیں سیمنٹ ہوچکی ہیں۔ دیگر کئی گاوؤں میں شاید مساجد اور گھروں کے اندر ستونون اور سیریوں کی صورت میں شاید کچھ آثار موجود ہوں، لیکن ہمارا ’’شوقِ سیمنٹ‘‘ سب کو مٹا رہا ہے۔
ابھی بالاکوٹ سے ناصر خان کریمی اور عبدالجبار کریمی کی ویڈیو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں کی مشہور مسجد کی جدید طرزِ تعمیر کرتے وقت ان ستونوں اور سیریوں کو عبد الحمید کریمی صاحب نے محفوظ کرنے کا انتظام کیا ہے۔ عبدالحمید کریمی وہ شخص ہے، جنھوں نے 1980ء کی دہائی میں مقامی طور پر توروالی کی پہلی کتاب کوہستانی اردو بول چال کے نام سے مرتب کی۔ یہ وہ واحد شخص ہیں، جن کو اپنی زبان، ثقافت اور ورثے سے محبت ہے۔ اس کا ثبوت یہ کتاب اور اب بالاکوٹ میں لکڑی کی اس قدیم کندہ کاری کو محفوظ کرنا ہے۔ مَیں ایک برخوردار کی حیثیت سے اُن کو خراجِ تحسین اور سلام پیش کرتا ہوں!
(نوٹ:۔ جو حضرات پہاڑی وادیوں میں خصوصاً درال اور پلوگاہ میں سفر کرتے ہیں، اُن کو کسی چٹان پر اگر کچھ نشانات نظر آئیں، تو بہ راہِ کرم آگاہ کیجیے گا، شکریہ!)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










