پاکستانی ڈراما نگاری کی دنیا میں ایک نئی سیریز نے موضوعات کی حساسیت کو چھولیا ہے، جو نہ صرف دل چسپ ہے، بل کہ معاشرے کے زخموں کو کھوجنے والا بھی۔ یہ سیریز ایک ایسے کیس کی داستان بیان کرتی ہے، جہاں ایک بہادر خاتون کو طاقت ور طبقے کے سامنے عدالتی میدان میں لڑنا پڑتا ہے، جہاں ریپ جیسی سنگین جرم کی متاثرہ کی جد و جہد مرکزی کردار ہے۔ اداکاروں کی شان دار پرفارمنس، تیز اسکرپٹ اور سماجی مسائل کی گہرائی نے اسے فوری طور پر ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے…… مگر جب معاملہ انسانی حقوق کے انتہائی نازک پہلو کا ہو، تو تفریحی پروگرام کی ذمے داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پائیدار سماجی ترقیاتی تنظیم کی 2025ء کی رپورٹ کے مطابق جنسی بنیاد پر تشدد کے کیسوں میں سزا کی شرح محض 0.5 فی صد ہے، ایسا مواد نہ صرف سامعین کو متاثر کرتا ہے، بل کہ قانونی نظام کی پیچیدگیوں اور متاثرین کی حقیقی مشکلات کو مسخ کرنے کا خطرہ بھی رکھتا ہے۔ یہ تحریر تنقید کی آڑ میں نہیں، بل کہ بہتری کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے، کیوں کہ قومی نشریاتی پلیٹ فارمز پر پیش ہونے والا مواد معاشرے کی رہ نمائی کا ذریعہ بنے نہ کہ غلط فہمیوں کا باعث۔
اس سیریز کی سب سے نمایاں کم زوری قانونی تفصیلات کی درستی میں ہے، جو ابتدائی اقساط سے ہی سامنے آتی ہے۔ کہانی کا آغاز ایک ایسے منظر سے ہوتا ہے، جہاں متاثرہ خاتون واقعہ کے فوراً بعد پولیس اسٹیشن پہنچ جاتی ہے اور شکایت درج ہوجاتی ہے، جیسے یہ کوئی روزمرہ کی بات ہو۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ کڑوی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 375 اور 2016ء کے کریمنل لا (ترمیم) ایکٹ کے تحت ریپ کی شکایت درج کرانے کا قانونی حق تو موجود ہے، مگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کی 2024ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایسے کیسوں کی رپورٹنگ کی شرح انتہائی کم ہے اور سزا کی شرح 3 فی صد سے بھی کم تر ہے۔ ایکویلیٹی ناؤ کی جنوبی ایشیا پر 2024 کی رپورٹ مزید واضح کرتی ہے کہ پولیس کا غیر حساس رویہ، خاندانی دباو اور معاشرتی داغ کا خوف متاثرین کو ابتدائی 72 گھنٹوں میں شکایت درج کرانے سے روک دیتا ہے۔
سپریم کورٹ کے 2013ء کے تاریخی فیصلے (پی ایل ڈی 2013ء ایس سی 826) میں میڈیکل معائنہ 24 گھنٹوں کے اندر لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ مقدمہ کم زور پڑ جاتا ہے، مگر عملی طور پر یہ ہدایات اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ انسدادِ ریپ (تحقیق اور ٹرائل) ایکٹ 2021ء کے ٹرائل پروسیجر اینڈ انویسٹی گیٹرز رولز 2022ء (ایس آر او 1050(1) 2025، 11 جون 2025ء) میں انسدادِ ریپ کرائسز سیلز (اے آر سی سیز) کی تعداد میں اضافہ اور نیشنل سیکس آفینڈرز رجسٹر (ایس او آر) میں 94 فی صد ڈیٹا انٹری کی نشان دہی کی گئی ہے، مگر لاہور ہائی کورٹ نے 6 اپریل 2025ء کو اٹارنی جنرل کو طلب کر کے نفاذ کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے 2024ء کے جوڈیشل اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ صرف 12 فی صد کیس ابتدائی مرحلے میں درج ہوتے ہیں، جب کہ باقی کیس خاندانی مصالحت یا پولیس کی صلح کاری کی نذر ہو جاتے ہیں اور پنجاب جی بی وی رپورٹ 2025ء (22-04-25) میں لاہور میں 532، فیصل آباد میں 340 ریپ کیس درج ہونے کا ذکر ہے، جن میں سے صرف 16.5 فی صد سزائیں ہوئیں ’’جینڈر بیسڈ وائلنس کورٹس‘‘ کی بہ دولت۔ یہ سیریز ان حقیقتوں کو چھوڑ دیتی ہے، جس سے ناظرین کو یہ غلط تاثر مل سکتا ہے کہ ہر متاثرہ فوری طور پر انصاف کی طرف قدم بڑھا سکتی ہے، حالاں کہ حقیقت میں یہ عمل برسوں کی جد و جہد کا نام ہے۔
تفتیشی مراحل کی تصویر کشی تو اس سے بھی زیادہ مسخ شدہ ہے، جو ڈرامائی رفتار کی خاطر قانونی حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتی ہے۔ اقساط میں ملزم کی گرفتاری، شواہد کی بازیابی اور گواہوں کی نشان دہی چند دنوں میں مکمل ہو جاتی ہے، جیسے پولیس کا نظام فوری اور موثر ہو۔ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 154 سے 173 تک کا تفتیشی فریم ورک 14 دنوں میں چالان رپورٹ کا مطالبہ تو کرتا ہے، مگر پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کی ڈی این اے رپورٹس آنے میں 4 سے 8 مہینے لگ جاتے ہیں، جیسا کہ ایجنسی کی 2025ء کی اَپ ڈیٹ رپورٹ میں درج ہے۔ ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ نمونوں کی مناسب حفاظت، درجۂ حرارت کی کنٹرول اور لیبارٹری بوجھ کی وجہ سے تاخیر عام ہے۔ 2020ء میں پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ ہر کیس میں پانچ سے زائد مشتبہ نمونے نہ بھیجے جائیں، تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو، جب کہ انسدادِ ریپ ایکٹ 2021ء کی 2025ء اَپ ڈیٹس میں ایس اُو آر کے لیے ہارڈ ویئر اَپ گریڈز کی وجہ سے تاخیر اب بھی جاری ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی 2024ء کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فورنزک ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے 60 فی صد کیس ختم ہو جاتے ہیں اور وزارتِ قانون کی 14 جنوری 2025ء کی پریس ریلیز میں ایس اُو آر میں 94 فی صد ڈیٹا انٹری کی نشان دہی کی گئی، مگر عملی تاخیر کی وجہ سے بریت کی شرح 92 فی صد رہ گئی۔ عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کی یو این ویمن کی 2024ء کی رپورٹ جنوبی ایشیا میں جنسی تشدد کے کیسوں میں 85 فیصد بریت کی شرح بتاتی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ 92 فی صد تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ ہائی کورٹس جوڈیشل ڈیٹا بینک کے 2024ء کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے۔
زیرِ تبصرہ سیریز ("Case No.9”) فوری شواہد کی پیش کش سے ناظرین کو یہ اُمید دلاتی ہے کہ نظام تیز رفتار ہے، مگر حقیقت میں متاثرین کو طویل انتظار اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اُن کی جدوجہد کو مزید تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔
عدالتی مراحل کی پیش کش میں بھی قانونی درستی کی شدید کمی ہے، جو نہ صرف ڈرامائی ضرورت تھی، بل کہ ذمے داری کی کمی بھی ظاہر کرتی ہے۔ سیریز میں مقدمہ فوری طور پر سیشن کورٹ میں چلنا شروع ہو جاتا ہے، ضمانت کی سماعت ایک ہفتے میں طے ہو جاتی ہے اور گواہوں کی حفاظت کا کوئی مسئلہ دکھایا ہی نہیں جاتا۔ ضابطۂ فوج داری کی دفعہ 190 کے تحت مجسٹریٹ کی منظوری اور کیس کی منتقلی کا عمل 45 سے 90 دن لیتا ہے، جب کہ انسدادِ ریپ (تحقیق اور ٹرائل) ایکٹ 2021ء میں خصوصی عدالتوں کا قیام، ڈی این اے ٹیسٹنگ کی لازمی شرط، متاثرہ کی شناخت کی حفاظت اور تین ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں، مگر 17 جون 2025ء کی اَپ ڈیٹ میں دفعہ 354 کو ہٹا کر صرف سنگین جنسی جرائم پر توجہ دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے 2024ء کے نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ ریپ کیسوں کا 68 فی صد دو سال سے زیادہ چلتا ہے، اور لاہور ہائی کورٹ کی 15 روزہ کیس لا بلیٹن (01.08.25 تا 15.08.25) میں انسدادِ ریپ ایکٹ 2021ء کی تمہید کا مقصد متاثرین اور بچوں کے حقوق کی حفاظت بتایا گیا، مگر گواہوں کی عدم دست یابی اور ثبوتوں کی کمی عام ہے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں میں محمد عمران بہ نامِ ریاست (2024ء ایس سی پی 226) کا ذکر ہے، جہاں ریپ کیس کو ’’رضامندی پر مبنی زنا‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے اختلافی نوٹ دیا کہ ڈی این اے شواہد اور فریز ریسپانس کو نظر انداز کیا گیا، جو سیڈا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ 29 اگست 2025ء کا فیصلہ، جہاں ایک باپ کو بیٹی کے ریپ کیس میں بری کر دیا گیا شواہد کی کمی پر، جب کہ 12 جولائی 2024ء کا کیس بھی رضامندی پر زنا میں بدل دیا گیا۔
گواہوں کی حفاظت کا معاملہ تو الگ ہی سنگین ہے۔ گواہ تحفظ ایکٹ 2017ء وفاقی سطح پر اور پنجاب گواہ تحفظ ایکٹ 2018ء صوبائی سطح پر منظور ہوچکے ہیں، مگر ان کا نفاذ انتہائی کم زور ہے۔
اقوامِ متحدہ کے منشیات و جرائم کے ادارے کی 2024ء کی رپورٹ میں سندھ میں گواہ تحفظ قانون کے نفاذ کی ناکامی پر روشنی ڈالی گئی ہے، جہاں پانچ سال گزر جانے کے باوجود مناسب میکانزم قائم نہیں ہوسکا، اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2024ء کی رپورٹ گواہ دھمکی کے واقعات میں دستاویزی ثبوت ہیں کہ 40 فی صد گواہ دباو میں بیان بدل دیتے ہیں۔ یہ سیریز ان مراحل کو انتہائی سادہ بنا دیتی ہے، جس سے ناظرین عدالتی نظام کو فوری اور بے درد سمجھ سکتے ہیں۔ایک ایسی غلط فہمی جو حقیقی متاثرین کی مشکلات کو اور گہرا کر دیتی ہے۔
میڈیکل اور نفسیاتی پہلوؤں کی نظراندازی "Case No.9″نامی سیریز کو اخلاقی طور پر مزید کم زور بناتی ہے۔ کہانی میں میڈیکل رپورٹ فوری طور پر عدالت میں پیش ہو جاتی ہے، مگر پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کے رہ نما خطوط کے مطابق جنسی حملہ شواہد اکٹھا کرنے کی کٹس (ایس اے ای سی کے) کا استعمال لازمی ہے، جو 2025ء تک بھی شاذ و نادر ہی ہوتا ہے…… اور انسدادِ ریپ ایکٹ 2021ء میں ’’ٹو فنگر ٹیسٹ‘‘ پر پابندی اور ’’ایس اے ای سی‘‘ کے کٹس کے لازمی استعمال کی شق کا ذکر ہے، مگر اے آر سی سیز کی بہتری کے باوجود 55 فی صد امتحانات 48 گھنٹوں بعد ہوتے ہیں۔
جرنل آف فورنزک اینڈ لیگل میڈیسن کی 2023ء کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں 55 فی صد میڈیکل معائنات 48 گھنٹوں کے بعد ہوتے ہیں، جس سے سیمیں جیسے اہم ثبوت ختم ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی مدد کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، حالاں کہ عالمی ادارۂ صحت کی 2022ء کی رپورٹ جنسی تشدد سے متاثرہ خواتین کی ذہنی صحت بتاتی ہے کہ 80 فی صد متاثرین پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتے ہیں اور پاکستان میں نفسیاتی کونسل انگ کی سہولیات 5 فی صد سے بھی کم ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی 2024ء کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جنسی تشدد کی متاثرات کے لیے فوری طبی امداد تو ممکن ہو جاتی ہے، مگر طویل مدتی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی شدید کمی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن 2024ء میں پی ٹی ایس ڈی کی 80 فی صد شرح اور خودکشی کی 0.8 فی صد اضافہ کا حوالہ ہے، جو انسدادِ ریپ ایکٹ کے نفاذ میں کمی سے جڑا ہے۔ یہ چھوڑنا نہ صرف قانونی، بل کہ انسانی ہم دردی کی کمی ہے۔ کیوں کہ سیریز ("Case No.9”) متاثرہ کو بیرونی طور پر مضبوط دکھاتی ہے، مگر اُس کی اندرونی تباہی اور نفسیاتی زخموں کو بالکل نظر انداز کر دیتی ہے۔
اخلاقی اور نشریاتی زاویہ تو اس معاملے کو مزید سنجیدہ بنا دیتا ہے۔ کیوں کہ یہ مواد قومی نشریاتی پلیٹ فارم پر گھریلو ماحول میں پیش ہوتا ہے، جہاں بچے، نوعمر لڑکیاں اور بزرگ سب دیکھتے ہیں۔ عالمی معیاروں میں برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن اور نیٹ فلکس جیسے پلیٹ فارمز ایسے حساس مواد کو” 18+” ریٹنگ دیتے ہیں اور انتباہی پیغامات کو لازمی قرار دیتے ہیں، جیسا کہ بی بی ایف سی کی 2024ء کی رپورٹ میں 85 فی صد والدین کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ پیمرا کا الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015ء، جو 2025ء تک اپ ڈیٹ شدہ ہے، شق 12 کے تحت حساس مواد کی نشریات کے لیے وقت کی پابندی (رات 10 بجے کے بعد) اور واضح وارننگ کو لازم قرار دیتا ہے، خاص طور پر جنسی تشدد کی تصویر کشی میں انتہائی احتیاط کی گئی ہدایت ہے۔ 2025ء کی خصوصی کمیٹی میٹنگ میں پیمرا نے اے آر سی سیز اور ایس اُو آر کی نگرانی پر زور دیا، جب کہ 2023ء کے ’’حادثہ‘‘ (ڈراما) کی پابندی کی مثال سے حساسیت واضح ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2024ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایسے مواد سے نوعمر لڑکیوں میں فوری انصاف کی غلط اُمید پیدا ہوتی ہے، جو خودکشی کی شرح بڑھاتی ہے، جہاں 90 فی صد کیسوں میں متاثرین شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ محض تفریح نہیں، بل کہ معاشرتی ذمے داری ہے، خاص طور پر جب 60 فی صد آبادی 25 سال سے کم عمر ہے اور حساس موضوعات کی غلط پیش کش سماجی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔
تعمیری تجاویز کے طور پر اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اب تو ڈراما کافی آگے جاچکا ہے، مگر اس طرح کے ڈراموں کو تیار کرتے وقت قانونی ماہرین کی مشاورت کو لازمی بنانا چاہیے، تاکہ حقیقت اور فکشن کی حد واضح رہے۔ ہر قسط کے اختتام پر ایک مختصر نوٹ شامل کیا جائے: ’’یہ ڈرامائی کہانی ہے؛ حقیقت میں تفتیش اور مقدمہ مہینوں اور برسوں لیتا ہے۔ فوری مدد کے لیے 1099 ہیلپ لائن، 15 یا مقامی قانونی امداد سے رابطہ کریں۔‘‘
یہ سیریز، جو سماجی مسائل پر لکھی گئی ہے، ابھی تک اپنی مقبولیت کی بلندیوں پر ہے، لہٰذا اسے درست کرنے کا موقع ضائع نہ کیا جائے۔ نشریاتی ادارے اور ریگولیٹری باڈی کو چاہیے کہ اس قسم کے ڈراموں کو ’’18+‘‘ ریٹنگ دیں اور مناسب وقت پر نشر کریں، جیسا کہ عالمی اور قومی ضابطوں کا تقاضا ہے۔
اگر مقصد آگاہی پھیلانا ہے، تو درستی اور ذمے داری بھی ناگزیر ہے۔ورنہ یہ پروگرام انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا، نہ کہ اُمید کی کرن…… پاکستان کو ایسے ڈراموں کی ضرورت ہے، جو حقیقی جد و جہد کو اجاگر کریں، ایسے ڈراموں کو نہیں، جو مایوسی پھیلائیں۔ اس سیریز کی کام یابی اسے بہتر بنانے کا سنہری موقع تھا، جو ہر حال میں استعمال ہونا چاہیے تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










