بدعنوان سیاست کا نتیجہ کم زور ریاست

Blogger Muhammad Ishaq Zahid

دنیا بھر میں حکومتوں کا نظام سیاسی قیادت کے تحت چلتا ہے۔ سیاسی محکمہ کسی ملک کی رہ نمائی، پالیسی سازی اور دیگر سرکاری محکموں کی نگرانی کا ذمے دار ہوتا ہے۔ جب یہی سیاسی محکمہ بدعنوانی، اقرباپروری، نااہلی اور ذاتی مفادات کا شکار ہوجائے، تو اس کے اثرات صرف اسی محکمہ تک محدود نہیں رہتے، بل کہ پورے ریاستی نظام میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔
دنیا کی ہر ریاست میں مختلف ادارے اور محکمے مل کر حکومت کا نظام چلاتے ہیں، لیکن ان تمام اداروں کا محور اور مرکز ’’سیاسی محکمہ‘‘ ہوتا ہے، کیوں کہ یہی ادارہ باقی تمام شعبہ جات کو رہ نمائی، قیادت، سمت اور پالیسی مہیا کرتا ہے۔ اگر سیاسی محکمہ درست سمت میں کام کرے، تو پورے ملک کا نظام نظم و ضبط سے چلتا ہے، لیکن اگر یہی محکمہ بگاڑ کا شکار ہو جائے، تو پھر تمام محکموں میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے۔
سیاست دراصل وہ فن ہے، جس کے ذریعے ملک کے معاملات کو چلایا جاتا ہے، عوامی فلاح و بہبود کے فیصلے کیے جاتے ہیں، وسائل کی تقسیم ہوتی ہے اور عوام کے لیے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ایک صاف و شفاف، دیانت دار اور باصلاحیت سیاسی قیادت عوام کو ترقی کی راہ پر گام زن کرتی ہے، جب کہ بدعنوان اور خودغرض قیادت پوری ریاستی مشینری کو تباہ کر دیتی ہے۔
جب سیاسی قیادت کرپشن، اقربا پروری، نااہلی اور ذاتی مفاد پر مبنی فیصلے کرنے لگے، تو اس کے منفی اثرات ہر شعبے پر پڑتے ہیں۔ ایسے میں نہ صرف ریاستی ادارے متاثر ہوتے ہیں، بل کہ عوام کی زندگی بھی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔
سیاسی مداخلت کے نتیجے میں بیوروکریسی، جو کہ نظم و نسق کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اپنے غیر جانب دارانہ کردار سے ہٹ کر سیاسی غلامی اختیار کرلیتی ہے۔ تبادلہ، تقرر اور ترقی میرٹ کی بہ جائے سفارش پر ہونے لگتی ہیں۔ نتیجتاً نااہل افراد اعلا عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔
جب عوام دیکھتے ہیں کہ سیاست دان وعدے کرتے ہیں، مگر عمل نہیں، تو اُن کا اعتماد حکومت، نظام اور جمہوریت سے اُٹھ جاتا ہے۔ عوام احتجاج، دھرنے یا حتیٰ کہ غیر جمہوری راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک ایسی فضا جنم لیتی ہے، جس میں ’’انارکی‘‘ (افراتفری) پیدا ہوتی ہے۔
ایک بگڑا ہوا سیاسی محکمہ محض ایک ادارہ نہیں بگاڑتا، بل کہ پورے نظام، معیشت، معاشرت اور اداروں کو گھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اگر سیاست دانوں میں دیانت، شفافیت، وِژن اور عوامی خدمت کا جذبہ ہو، تو ریاست ترقی کرتی ہے، انصاف عام ہوتا ہے، ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور عوام خوش حال ہوتی ہے۔ لہٰذا سیاسی محکمہ کی درستی، ملکی ترقی کی بنیاد ہے۔
ایک بگڑا ہوا سیاسی محکمہ، انصاف کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔ افسران کی تعیناتی قابلیت کی بہ جائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ نتیجتاً، پولیس، عدلیہ، تعلیم، صحت اور دیگر ادارے بھی زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور قانون کی بالادستی کم زور پڑ جاتی ہے۔
سیاسی محکمہ اگر بدعنوان ہو، تو ترقیاتی منصوبے بھی صرف کاغذوں میں نظر آتے ہیں۔ عوام کے ٹیکس کا پیسا ذاتی عیش و عشرت یا غیر ضروری اخراجات میں ضائع ہو جاتا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے نظر انداز کر دیے جاتے ہیں اور عام آدمی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی چکی میں پسنے لگتا ہے ۔
سیاسی بگاڑ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جب عوام دیکھتے ہیں کہ قانون صرف غریب کے لیے ہے اور طاقت ور سزا سے بچ جاتا ہے، تو وہ بھی قانون کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ یہ رویہ معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور ایک ناانصافی پر مبنی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
بہتری کی امید تب ہی کی جا سکتی ہے، جب سیاسی قیادت دیانت، قابلیت اور خلوصِ نیت کے اصولوں پر عمل کرے۔ جب سیاست دان عوامی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں اور خود کو احتساب کے لیے پیش کریں، تو ریاستی ادارے بھی درست سمت میں کام کرنے لگتے ہیں۔
سیاسی محکمہ کسی بھی ریاست کا دماغ اور دل ہوتا ہے۔ اگر یہ بگڑ جائے، تو سارا جسم بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاست کو عبادت سمجھا جائے اور قیادت کو صرف اہل اور باکردار افراد کے ہاتھ میں دیا جائے، تاکہ پورے نظام کو درست سمت میں لایا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے