تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی فکری، اخلاقی اور سائنسی تعمیر و ترقی کے مراکز ہوتے ہیں۔ یہاں طلبہ میں علم و تحقیق کے ساتھ ساتھ کردار، حیا، تمیز اور خدمتِ انسانیت کا جذبہ پروان چڑھنا چاہیے…… مگر لگتا یوں ہے کہ آج ہمارے تعلیمی ادارے اپنی اصل روح سے بہت دور جا چکے ہیں۔
اب تعلیم و تربیت اور اخلاق کے گہواروں میں فیشن، فضول تفریح اور نمود و نمایش کے رجحان نے جگہ لے لی ہے۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی پروگراموں کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اخلاق و کردار کے بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ فن میلہ، خیر مقدمی تقریب، الوداعی تقریب، ادبی ہفتہ، ثقافتی دن اور کھیلوں کا ہفتہ ان تمام عنوانات کا مقصد بہ ظاہر طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا، اعتماد پیدا کرنا، ٹیم ورک اور مثبت مسابقت کا جذبہ ابھارنا بتایا جاتا ہے…… مگر حقیقت یہ ہے کہ اب ان تقریبات میں مقاصد پسِ پشت چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ نمود و نمایش، فیشن، موسیقی اور غیر اخلاقی حرکات نے لے لی ہے۔
فن میلہ کا مقصد طلبہ میں تنظیمی صلاحیت اور اختراعی سوچ پیدا کرنا تھا، مگر اب یہ محض نمایش، شور شرابے اور بے مقصد کھیل تماشے کا ذریعہ بن چکا ہے۔
خیر مقدمی تقاریب کا مقصد نئے طلبہ کا حوصلہ بڑھانا اور انھیں ادارے کے ماحول سے مانوس کرنا تھا، مگر آج یہ محفلیں نیم برہنہ لباس، رقص و موسیقی اور فحش مزاح تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
اسی طرح الوداعی تقریبات، جو سینئر طلبہ کے لیے محبت، احترام اور نیک تمناؤں کے اظہار کا موقع ہوا کرتی تھیں، اب فیشن شوز، فوٹو سیشنز اور رقص و نغمہ کی محفلوں میں بدل چکی ہیں۔
ادبی ہفتہ، جس کا مقصد مطالعہ، شعر و سخن، تقریر اور تحریر کی صلاحیتوں کو اُبھارنا تھا، اب محض رسمی تقریبات اور کم علمی کے مظاہروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
کھیلوں کا ہفتہ کھیل اور جسمانی تربیت کے فروغ کے لیے منعقد کیا جاتا تھا، مگر اب کھیل کم اور شور شرابہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس طرح ثقافتی دن کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ ہماری اپنی ثقافت نہیں، بل کہ مغربی تہذیب کی نقالی کا مظاہرہ ہے۔
اب یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہی وہ اقدار ہیں، جن کے لیے ہمارے ادارے قائم کیے گئے تھے؟ کیا یہی وہ ماحول ہے، جس میں آنے والی نسلوں کی تربیت ہونی چاہیے؟
زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اب اساتذہ اور منتظمین بھی ان سرگرمیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ جو کبھی کردار سازی کے ستون سمجھے جاتے تھے، آج تماشائی یا سہولت کار بن کر انھی غیر اخلاقی مناظر سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔
جب اُستاد اور شاگرد ایک ہی محفل میں بیٹھ کر رقص و موسیقی سے محظوظ ہوں، تو پھر علم، حیا اور احترام کا وہ رشتہ کہاں باقی رہ جاتا ہے، جو تعلیمی اداروں، اُستاد و شاگرد کے تعلق کی اصل روح اور حسن ہوا کرتا تھا؟
بیٹیوں، پوتیوں اور نواسیوں کی حیثیت رکھنے والی لڑکیاں جب ان کے سامنے نیم برہنہ لباس میں پرفارم کرتی ہیں، تو پھر ہم شرم و حیا اور اخلاقیات کے کس درجے پر اپنے آپ کو رکھیں؟ یہ مناظر ایک باحیا اور سنجیدہ شخص کے لیے نہایت تکلیف دِہ ہیں، کیوں کہ یہ سب کچھ اُس فضا میں ہو رہا ہوتا ہے، جہاں علم، تہذیب اور کردار سازی کے چراغ جلنے چاہییں…… مگر اب وہ چراغ مدھم کیا، بجھنے لگے ہیں۔
ثقافت کے نام پر بھی ایک نیا تماشا برپا ہے۔ ’’ثقافتی دن‘‘ کے نام پر نیم برہنہ لباس، رقص اور گانے پیش کیے جاتے ہیں، جب کہ اپنی قومی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کا کوئی عکس ان تقریبات میں دکھائی نہیں دیتا۔ اپنی زبان، اپنے مفکرین، اپنے شعرا اور اپنے دینی ورثے سے نوجوانوں کا تعلق تقریباً ختم ہوچکا ہے۔
ان پروگراموں پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ قیمتی وقت اور توانائیاں ضائع ہوتی ہیں، مگر نتیجہ صرف شور، نمایش اور وقتی فضول تفریح، بربادی اور بگاڑ ہے، نہ کہ علم میں اضافہ یا تربیت میں بہتری۔ یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اَب اگر کوئی استاد یا طالب علم ان حرکات پر تنقید کرے، تو اُسے ’’قدامت پسند‘‘ یا ’’شدت پسند‘‘ کَہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے اور زمانے کے تقاضوں سے بیگانہ قرار دیا جاتا ہے۔
مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ طب، انجینئرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ اداروں میں بھی یہی روش تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وہ نوجوان جو کل کو انسانیت کی خدمت اور اخلاقی نمونہ بننے والے تھے، آج انھی بے مقصد تقریبات کے منتظم بنے ہوئے ہیں۔ ان محفلوں میں دین کی بات ہوتی ہے، نہ اخلاقیات کی، نہ تحقیق کی اور نہ خدمتِ انسان کی۔ یوں لگتا ہے، جیسے تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے جو کچھ ہو رہا ہے ۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اداروں کے سربراہان کہاں ہیں؟ کیا ان پر یہ ذمے داری نہیں کہ وہ ان بے مقصد سرگرمیوں کو روکیں؟ اگر اساتذہ خود اس روش کا حصہ بن جائیں، تو آنے والی نسلوں کی رہ نمائی کون کرے گا؟ کیا ہم واقعی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اپنے طلبہ کے اخلاقی زوال پر بھی خاموش تماشائی، بل کہ ان کے معاون اور سہولت کار بنے رہیں؟
ان تعلیمی اداروں میں کسی مفکر کا ذکر ہوتا ہے، نہ کسی مصلح یا محقق کا…… طلبہ کے آئیڈیل وہ لوگ بن گئے ہیں، جو صرف سماجی ذرائع ابلاغ پر مشہور ہیں اور جن کی مشہوری کی وجہ علم و تحقیق یا کردار نہیں، بل کہ مذاق، فضول حرکات اور وقتی شہرت ہے۔ تخلیق، تحقیق اور تعمیر کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں اور احساسِ زیاں بھی باقی نہیں رہا۔
ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو اصل راستے پر واپس لانے کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں کو تعلیم، تحقیق اور سیرت و کردار کی تعمیر کے مقصد سے ہم آہنگ بنانا ہوگا، تاکہ علم، کردار، اخلاق اور تخلیقی صلاحیت کو فروغ ملے، نہ کہ حیا اور اقدار مٹ جائیں۔ اساتذہ کو پھر سے اپنی اصل شناخت، یعنی کردار سازی اور رہ نمائی کو زندہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو آنے والی نسلیں بے سمت، بے حیا اور بے مقصد ہو جائیں گی اور اس کا نقصان صرف فرد کا نہیں، بل کہ پورے معاشرے اور آنے والی نسلوں کا ہوگا۔
یہی وقت ہے کہ ہم علم و حیا، تہذیب و کردار اور اخلاق و دانش کے چراغ دوبارہ جلائیں، تاکہ ہمارے تعلیمی ادارے پھر سے علم و اخلاق کے قلعے بن سکیں، نہ کہ اخلاقی زوال کے مراکز…… اور اس میں بنیادی کردار تعلیمی اداروں کے سربراہان، اساتذہ اور نصاب ساز ادراوں کا بنتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










