سیاسی جماعتوں میں قحط الرجال

Blogger Noor Muhammad Kanju

عمران خان کی 22 سالہ سیاسی جد و جہد استقامت اور عزم کی لازوال مثال ہے۔ یہ ایک ایسا کٹھن سفر تھا، جس میں وہ تنِ تنہا ایک بیانیہ لے کر آگے بڑھے…… لیکن جب طویل صبر اور تگ و دو کے بعد اقتدار اُن کے قدموں میں آیا، تو ایک حیران کن اور مایوس کن تضاد نے سر اُٹھایا:وہ اپنے بلند و بالا وِژن کے مطابق ملک اور صوبے چلانے کے لیے اہل، یک سو اور قابلِ اعتماد ٹیم تشکیل نہ دے سکے۔ اقتدار کی منزل پر پہنچ کر یہ انکشاف ہونا کہ آپ کے پاس راستے پر چلنے والے مخلص ساتھی تو ہیں، مگر اُن میں سے کوئی بھی منزل کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یہ صرف کپتان کی نہیں، بل کہ ہماری پوری سیاسی قیادت کی بڑی ناکامی ہے۔
خیبر پختونخوا میں عوام نے تین بار مسلسل بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ تحریکِ انصاف پر اعتماد کیا، جس سے پارٹی کو مکمل مواقع ملے کہ وہ وہاں انتظامی ڈھانچا مضبوط کرے۔ اس کے باوجود، کپتان کو ایک کے بعد ایک، تین وزرائے اعلا بدلنے پڑے۔ یہ اس بات کا کھلا اعتراف تھا کہ پارٹی کے اندر صوبائی سطح پر بھی مضبوط اور ذمے دار قیادت کا فقدان ہے، اور فیصلہ سازی کے اہم ترین عہدوں پر مسلسل تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح، پنجاب جیسے بڑے اور سیاسی اہمیت کے حامل صوبے میں تین سال کے اندر دو وزرائے اعلا کی تبدیلی اور مرکزی کابینہ میں بار بار کے رد و بدل اور وزارتی قلم دانوں کی تبدیلیاں، اس تلخ سچائی کی تصدیق کرتی ہیں کہ خان صاحب کو اپنے وِژن پر پورا اُترنے والا کوئی ایک بھی شخص نہیں مل رہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیوروکریسی اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی نہیں بن سکی اور فیصلہ سازی کا مرکز ایک شخص کی ذات بن کر رہ گیا۔
لیکن یہ المیہ محض تحریکِ انصاف کی قیادت یا جدید سیاست کا نہیں۔ یہ قحط الرجال، یعنی اہل افراد کی کمی کا بحران، ہماری قومی سیاست کا وہ دائمی عارضہ ہے جس نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی سے ہماری قیادتوں کو جکڑ رکھا ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد مسلم لیگ میں ایک عظیم نظریاتی اور انتظامی خلا پیدا ہوا جسے پُر کرنے کے لیے میرٹ کی بہ جائے قریبی اور وفادار شخصیات کو آگے لایا گیا۔ یہی مسئلہ پھر ذوالفقار علی بھٹو جیسے کرشماتی اور بااختیار لیڈروں کے ساتھ بھی رہا، جن کے سخت گیر اور آمرانہ انداز نے ان کے اردگرد محض خوشامدیوں اور ’’جی حضوری‘‘ کرنے والوں کا ہجوم اکٹھا کر دیا اور حقیقی صلاحیت رکھنے والے لوگ یا تو نکال دیے گئے یا وہ مرکزی دھارے سے باہر ہو کر پس منظر میں چلے گئے۔ یہ سلسلہ ہر بڑی سیاسی جماعت اور ہر بڑی شخصیت کے ساتھ چلتا رہا، جہاں لیڈر کی شخصیت پرستی نے نظریاتی تربیت اور میرٹ کو مکمل طور پر مات دے دی۔
ہمارے سیاسی نظام کا سب سے بڑا المیہ لیڈر کو ایک مقدس بت کی شکل میں پیش کرنا ہے۔ کارکنوں کو سیاسی اور نظریاتی شعور دینے کے بہ جائے، لیڈرز نے جان بوجھ کر انھیں بے شعور رکھا، تاکہ ان کی وفاداری غیر مشروط رہے۔ کارکنوں کو صرف ’’زندہ باد‘‘ کے نعروں، جھنڈے اُٹھانے اور جلسوں کی بھیڑ جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی ترجیحات میں سیاسی اور نظریاتی شعور کا فقدان غالب رہتا ہے۔ اس ماحول میں خاندانی موروثیت کا نظام مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے، جہاں میرٹ کی جگہ نسبت، اہلیت کی جگہ اطاعت اور وفاداری کی جگہ ذاتی قربت نے لے لی ہے۔ یہ ڈھانچا نہ صرف میرٹ کو پیچھے دھکیلتا ہے، بل کہ ایسے باصلاحیت اور نظریاتی کارکنوں کو سیاست سے دور کر دیتا ہے، جو نظام کو چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
جب اقتدار حاصل ہوتا ہے، تو پارٹی کے اندر اہل لوگ، جو ذمے داری نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ناپید ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ وہ اکثریت لیتی ہے، جو سیاست میں محض اپنی مالی کرپشن اور ذاتی بدعنوانی کو پروان چڑھانے کے لیے آتی ہے۔ یہ وہ موقع پرست ٹولہ ہوتا ہے، جن کی ملک یا نظریے سے وفاداری صفر کے برابر ہوتی ہے اور ان کا واحد مقصد لیڈر کی طاقت اور اختیار کو استعمال کر کے اپنا مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیڈرشپ کے پاس اختیار تو آ جاتا ہے، مگر اس اختیار کو صحیح سمت دینے کے لیے باصلاحیت وزرا اور دیانت دار منتظمین میسر نہیں ہوتے۔ یہی وہ المیہ ہے، جو ہمیں قائداعظم کے بعد سے آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈرشپ نے جدوجہد تو طویل کی، مگر اپنے دست و بازو مضبوط کرنے اور ٹیم بنانے پر کوئی توجہ نہ دی۔ جب تک ہماری سیاسی جماعتیں نظریاتی تربیت کو فروغ نہیں دیتیں اور ذاتی وفاداری پر میرٹ اور صلاحیت کو ترجیح نہیں دیتیں، ملک کو چلانے کی آزمایش میں ہر کامیاب جد و جہد کرنے والا لیڈر ناکام رہے گا اور اسے ہمیشہ ’’رجالِ کار کے قحط‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے