ضلع سوات کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل تاریخ کے پڑھنے اور تاریخی تحقیق کرنے والوں کے لیے کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہمیں دنیا کی پرانی اور ماضیِ قریب کے سیاسی اور انتظامی عملیات میں ایسے واقعات رونما ہونے کا بہ خوبی علم ہے۔ مَیں نے فرعونوں کے مصر کی توسیع اور ایک سیاسی وحدت بننا اور پھر ٹوٹنا اور اُن کے ہم عصر عراق کی اسی نوعیت کی تاریخ کو نہ صرف پڑھا ہے، بل کہ پڑھایا بھی ہے۔ اس طرح کی فہم مجھے پرانے ایران اور یونان کے علاوہ وادئی سندھ اور گندھارا تہذیبوں کی بھی ہے ۔ جہاں تک مغلوں کا ذکر ہے، تو ہم میں سے اکثر لوگ اس بارے جانتے ہیں ۔ ہم نے انگریزوں کے دور میں 1905ء والی تقسیمِ بنگال اور 1911ء میں اس کی تنسیخ بھی دیکھی ہے۔ ہم 1901ء میں صوبہ پنجاب سے صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) کی علاحدگی سے بھی بہ خوبی واقف ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ بونیر اور شانگلہ الگ ہوگئے۔ دراصل تاریخ پڑھنے اور لکھنے کے ہمیں کئی قسم کی اپروچز اور اصول سمجھائے جاتے ہیں۔ ہم وجوہات پر فوکس کرتے ہیں؛ ہم افراد کی تدبیر اور ذہنیت بھی دیکھتے ہیں۔ ایک اور بات بھی بتائی جاتی ہے کہ کوئی عمل ، فیصلہ اور اقدام اچھا ہے یا برا…… اس کا تعین اس کے نتائج کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
اس لمبی تمہید کے بعد اب آتے ہیں سوات کی تقسیم کی طرف۔
تاریخ سے بہ طور استدلال مجھے یہ کہنے میں کوئی تذبذب محسوس نہیں ہورہا کہ یہ تقسیم بھی انتظامی بنیادوں اور دعوؤں کی بنا پر کی گئی تقسیمِ بنگال یا پھر 1901ء والے صوبہ سرحد کی علاحدگی اور نتائج سے مختلف نہیں ہوگی۔ اور یا پھر بونیر اور شانگلہ کی مثالیں…… لیکن ان سطور میں تفصیلی بات کرنا سوات کی تقسیم میں تحصیلِ چارباغ کے ایشو پر مقصود ہے، جس میں میں کچھ نِکات زیرِ بحث لا رہا ہوں۔
آیا تحصیلِ چارباغ اَپر سوات کا تاریخی جزلاینفک ہے؟
آج کل سوات کی تقسیم کے حوالے سے پریس کانفرنسوں میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہاں، منگلور پل تک کا علاقہ اَپر سوات کا حصہ ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے شاید ان کو پتا نہیں کہ منگلور پل کا ایریا اور اس کے مشرق میں جہان آباد تک کا علاقہ بابوزئی کا دفتر ہے۔
دوسری جانب یہ دلیل اس حقیقت کو دانستہ یا نادانستہ طور فراموش کرتی ہے کہ تحصیلِ چارباغ کا اَپر سوات کے ساتھ اس کنکشن کو انتخابی حلقہ بندی کی ضرورتوں کے تحت ایک بندوبست کے طور پر سمجھنا درکار ہے، نہ کہ ایک ایسا اٹوٹ جغرافیائی وحدت کہ وہ اس علاقے کو فطری طور پر اپنے جنوبی ہمسایہ علاقے سے یک سر مختلف بنا رہی ہو۔ دوسری طرف تحصیلِ چارباغ، سماجی اور اقتصادی طور پر مینگورہ کے ساتھ منطقی اور تاریخی لحاظ سے مربوط اور پیوستہ ہے۔
اَپر اور لوئر سوات کے حوالے سے ایک حالیہ صحافتی ’’رینڈم سروے‘‘ (Random Survey) کی رپورٹ میں چارباغ بازار میں بہت لوگوں نے جواب دیا کہ ہم کاروباری لحاظ سے لوئر سوات سے اٹوٹ طور پر منسلک ہیں؛ ہمارے زیادہ غمی و خوشی کے روابط اسی طرف ہیں۔ ہمارے اَن گنت معاملات لوئر سوات میں ہیں، تو کیسے ایک انتظامی امور کے سبب ہم الٹے ہاتھ چلیں گے؟
اسی طرح میرے جاننے والے لوگوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر لوئر سوات کے حق میں اپنی رائے اس لیے دیتی ہے کہ اَپر سوات کی آپشن اُن کو لایعنی انتظامی اور جغرافیائی مصیبت میں پھنسا دے گی۔ اور یہ خدشات بہ جا طور پر درست ہیں ۔
تو پھر چارباغ کو کیوں زبردستی اَپر سوات میں شامل کیا جا رہا ہے…… اور اس کے پیچھے کون سے لوگ اور مفادات ہیں؟
مجھے تین مختلف، بل کہ بہ یک وقت جڑے ہوئے سٹیک ہولڈرز اور عوامل نظر آرہے ہیں۔
٭ پہلا:۔ موجودہ سوات کے قانون ساز، جو کہ سوات کی تقسیم کو اپنی پارلیمانی سیاست اور ’’انتخابی کونسٹیچیونسیز‘‘ (Constituencies)کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کو اپنے مستقبل کے سیاسی کیریئر کے فریم ورک میں چارباغ بہت اہم نظر آرہا ہے اور یا پھر خطرے کی علامت ۔ اس لیے اُن میں سے کچھ کی اَن تھک کوشش ہے کہ تحصیلِ چارباغ، اَپر سوات کا حصہ بنے۔ اور باقی اپنے اپنے حساب سے لاتعلق ہیں۔ دل چسپی اور مفاد والے پارلیمانی ممبر چارباغ میں اپنے متعلقہ افراد کو شہ دیتے ہیں کہ وہ ’’اَپر‘‘ کے حق میں کھڑے رہیں۔
٭ دوسرا:۔ اور یہی وہ دوسرا گروپ ہے، جس کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ کچھ لوگ اپنے علاقے اور لوگوں کے وسیع تر مفاد میں عاقبت نااندیشی سے کام لے رہے ہیں۔ ہمیں مستقبل میں اپنے آنے والی نسلوں کو جواب دہی کا احساس رکھنا چاہیے۔ نئے ضلع میں صرف نوکریوں کے مواقع ہمیں اور سخت حقیقتوں سے بے پروائی کا مرتکب نہ کریں۔ ہمیں ایک ’’یوٹوپین اپروچ‘‘ (Utopian Approach) کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہیے، جس میں مستقبل کو داو پہ لگانے کے واضح خطرات ہوں۔
٭ تیسرا:۔ جس تیسرے انٹرسٹ گروپ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں، وہ مجھے اَپر سوات میں خاندانی تعلق اور یک جہتی کا حامل نظر آرہا ہے۔ اس کو پتا ہی ہوگا کہ اَپر سوات، چارباغ کے لیے ایک ایسا غیر فطری ربط ہے کہ کل اس کے اَن گنت نقصانات اور مصیبتیں رونما ہوں گی…… لیکن یہ گروپ بے بس ہے ۔ اس گروپ کے لوگوں کے خاندانی تعلق کی نوعیت ان کی اپنی شناخت کو بنیادیں مہیا کرتی ہے۔ اس لیے اس قسم کے لوگ اپنے ضمیر کی آواز کے برعکس اپنی لوکل شناخت اور مستقبل کی لوکل سیاست کو محفوظ کرنے کے سعی کرتے ہیں۔
اس پوری کہانی میں تحصیل چارباغ کے عام لوگوں کی رائے اور آواز سننے والا کوئی نہیں۔ فیصلے اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے ہیں، جو عوام پہ مسلط کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی رائے بے وقعت نظر آرہی ہے۔ کیا یہ جمہوریت کی روح کے منافی نہیں؟ کیا ایسا کرنا جمہوریت کا رونا رونے والوں کو زیب دیتا ہے؟ چارباغ کو عوامی مرضی اور رائے کے برخلاف اَپر سوات میں شامل کرنے کا فیصلہ، تاریخ میں ان لوگوں کے دامن پر ایک بدنما داغ کے طور پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










