عمران بہ مقابلہ شہباز (تقابلی جائزہ)

Blogger Sami Khan Torwali

پاکستان کی سیاست میں ایک بحث ہمیشہ سے جاری رہی ہے کہ کسی بھی حکم ران کے اچھے یا برے فیصلے کا اندازہ اُس کے جانے کے بعد ہوتا ہے۔ آج جب ہم عمران خان کے دور اور موجودہ حکومت کے اقدامات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف نظر آتا ہے کہ دونوں نے مختلف انداز میں پالیسیاں اپنائیں، لیکن نتیجہ دونوں صورتوں میں عوام ہی کو بھگتنا پڑا۔ اس کالم میں ہم تین بڑے پہلوؤں پر نظر ڈالیں گے، یعنی
٭ خارجہ پالیسی۔
٭ قرضہ جات۔
٭ گڈ گورننس۔

سب سے پہلے نظر ڈالتے ہیں خارجہ پالیسی پر:
٭ خارجہ پالیسی:۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے، تو اُن کے مخالفین نے اُنھیں نالائق کہا، لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے خارجہ پالیسی کے کچھ پہلوؤں میں کم از کم ایک بیانیہ ضرور پیش کیا۔ خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے عمران خان کی پالیسی نسبتاً واضح اور دوٹوک تھی۔ اُنھوں نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ مَیں کشمیر کا سفیر ہوں۔ یہ الفاظ محض نعرہ نہیں تھے، بل کہ اُنھوں نے دنیا کے طاقت ور پلیٹ فارم پر کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی بات کی۔ اس کے علاوہ عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دباو کے باوجود ایک جملے میں بات ختم کر دی کہ ’’پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔‘‘
یہ موقف عوامی جذبات کے عین مطابق تھا۔ پاکستان کے عوام فلسطین کے ساتھ اپنے تعلق کو محض مذہبی نہیں، بل کہ تاریخی اور تہذیبی رشتے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عمران خان نے اس بیانیے کو سیاسی سرمایہ بنایا اور عوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔
اب آئیے موجودہ حکومت کی طرف۔ آج جب اسرائیل غزہ پر ظلم ڈھا رہا ہے، تو ہماری حکومت کی آواز کم زور محسوس ہوتی ہے۔ زبانی بیانات ضرور آتے ہیں، وزرا جلسوں میں تقریریں کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ کشمیر کا معاملہ تو اور بھی افسوس ناک ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کیے، تو عمران خان نے کم از کم عالمی میڈیا پر شور مچایا۔ آج کی حکومت خاموشی کے پردے میں چھپی نظر آتی ہے۔ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں پاکستانی سفارت خانے صرف رسمی تقاریب کرتے ہیں۔ کوئی مضبوط لابنگ یا موثر احتجاج دکھائی نہیں دیتا۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک حکومت عالمی برادری کے سامنے اپنے موقف کو طاقت سے پیش نہ کرسکے، تو عوام کس پر بھروسا کریں؟ فلسطین اور کشمیر جیسے مسئلے صرف تقریروں سے نہیں چلتے، ان کے لیے سفارت کاری، معاشی خودمختاری اور عالمی تعلقات میں توازن ضروری ہے۔ عمران خان نے کم از کم ایک بیانیہ دیا، جب کہ موجودہ حکومت محض بیانیے کو کم زور کر رہی ہے ۔
٭ قرضہ جات:۔ پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ قرضوں کا بوجھ ہے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے، تو کہا کرتے تھے میں خودکشی کر لوں گا، لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا…… لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اُنھیں حالات نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ 2018ء میں جب وہ حکومت میں آئے، تو زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم تھے۔ عمران خان نے پہلے دوست ممالک سے مدد مانگی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے اربوں ڈالر کی امداد ملی، لیکن پھر بھی معیشت کا پہیا نہ چل سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2019ء میں عمران خان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔
عمران خان کے دور میں قرضے بڑھے، مگر وہ اس کو ’’پچھلی حکومتوں کی لوٹ مار‘‘ کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی قرضوں کا پہاڑ کھڑا کیا، مگر عمران خان نے جب خود حکومت میں آکر وہی راستہ اپنایا، تو اُن کے اپنے الفاظ اُن کے گلے کا طوق بن گئے ۔
اب ذرا موجودہ حکومت کو دیکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت بننے کے بعد قرضوں کا سلسلہ مزید بڑھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدے ہوئے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ روپے کی قدر میں کمی آئی۔ عوام کی قوتِ خرید ختم ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرضے ملک کی ترقی پر لگ رہے ہیں، یا محض پرانے قرضے اُتارنے میں استعمال ہو رہے ہیں؟
معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان نے کچھ فلاحی پروگرام جیسے ’’احساس‘‘ کو قرضوں کے باوجود جاری رکھا، جب کہ موجودہ حکومت نے ایسے پروگراموں کو سیاسی بنیادوں پر دوبارہ ’’بے نظیر انکم سپورٹ‘‘ کے نام سے زندہ کیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرضہ جات بڑھتے گئے، لیکن ملک کی پیداوار، برآمدات اور روزگار کے مواقع نہیں بڑھے…… یعنی دونوں حکومتیں قرضوں کے معاملے میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دے سکیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان کے دور میں عوام کو ایک اُمید تھی کہ شاید حالات کچھ بہتر ہو جائیں، مگر آج وہ اُمید بھی ختم ہو چکی ہے۔
٭ گڈ گورننس:۔ پاکستانی عوام کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کون سی حکومت گڈ گورننس لا سکتی ہے؟ عمران خان نے اپنے دور میں کرپشن کے خلاف سخت بیانیہ دیا۔ اُنھوں نے احتساب کا نعرہ لگایا اور نیب کو متحرک کیا…… لیکن عملی طور پر نیب صرف مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا رہا۔ خود تحریکِ انصاف کے وزرا اور مشیروں کے خلاف تحقیقات دبائی گئیں۔ یہ دوہرا معیار عمران خان کی گڈ گورننس کے دعوؤں پر سوالیہ نشان تھا۔
اس کے باوجود کچھ مثبت پہلو بھی تھے۔ ’’احساس پروگرام‘‘ کے تحت لاکھوں غریب خاندانوں کو بہ راہِ راست امداد ملی۔ ’’صحت کارڈ اسکیم‘‘ متعارف ہوئی۔ ان اقدامات کو عوام نے سراہا۔
اب موجودہ حکومت کی طرف دیکھیں، تو گڈ گورننس کا مطلب محض اقتدار کا تسلسل بن چکا ہے۔ بیوروکریسی پر سیاسی دباو، اداروں میں اقربا پروری اور مفاداتی تقرر جیسے عوامل عام ہیں۔ احتساب کا نعرہ دفن ہو چکا ہے۔ آج کل عوام کو صرف مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی کش مہ کش کا سامنا ہے۔ عوامی ریلیف کے لیے کوئی نئی اسکیم سامنے نہیں آئی اور اگر کچھ ہے بھی، تو صرف اعلانات کی حد تک ہے۔
سخت فیصلے کا مطلب ہوتا ہے ایسے فیصلے جو فوری طور پر عوام کو ریلیف دیں، مگر بدقسمتی سے ایسی کوئی جھلک عمران خان کے دور میں دکھائی دی اور نہ موجودہ حکومت میں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان نے کم از کم کرپشن کے خلاف ایک ’’مضبوط بیانیہ‘‘ بنایا، جب کہ آج حکومت نے کرپشن کو موضوعِ بحث ہی نہیں رہنے دیا۔
قارئین! تینوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اگر تجزیہ کیا جائے، تو تصویر یہ ہے کہ عمران خان نے فلسطین اور کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کیا، جب کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کم زور نظر آتی ہے ۔ دونوں حکومتوں نے قرضے لیے، لیکن عوامی ریلیف نہ ملا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان نے کچھ فلاحی پروگرام جاری رکھے، جب کہ موجودہ حکومت نے صرف مہنگائی کو بڑھایا۔
اس طرھ عمران خان نے بیانیہ دیا، لیکن عمل کم کیا، جب کہ موجودہ حکومت نے بیانیہ دیا نہ عمل ہی کیا۔
پاکستان کے عوام آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ہر حکومت قرضہ لے، ہر حکومت عوام کو مہنگائی کے بھنور میں ڈالے اور ہر حکومت صرف تقریروں پر گزارا کرتی پھرے، تو پھر اصل تبدیلی کب آئے گی؟ یہ سوال آج بھی زندہ ہے اور شاید کل بھی زندہ رہے۔ عوام کو وہی حکومت کام یاب نظر آتی ہے، جو عملی طور پر ریلیف دے، خارجہ پالیسی میں مضبوط موقف رکھے اور قرضوں سے نجات کا کوئی راستہ نکالے۔ ورنہ تاریخ یہی کہے گی کہ حکم ران بدلتے رہے، مگر عوام کی حالت نہ بدلی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے