بھارتی نئی پارلیمنٹ میں دکھائے گئے نقشے میں ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا تصور واضح طور پر جھلکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس نقشے میں پاکستان، نیپال، مالدیپ، بھوٹان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کے علاقے شامل دکھائے گئے ہیں۔ نقشے پر پشاور، ملتان، افغانستان، سرلنکا، کابل اور میانمار کو عجیب ناموں سے لکھا گیا ہے۔ الفاظ اور قالب دونوں میں ایک متخیل تاریخی بیانیہ پروان چڑھایا گیا ہے۔
منظرِ عام پر آنے والے اس تصور کے بارے میں بھارتی پارلیمانی امور کے ایک وزیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:’’عزم واضح ہے…… اکھنڈ بھارت؛ اکھنڈ بھارت کا تصور قدیم ہندوستانی ثقافت سے آیا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت ہندوستانی ثقافت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے، جو ہندوستان کے مختلف خطوں اور اُن کی تمام جہتوں کی نمایندگی کرتی ہے۔‘‘
بی جے پی کے ایک اور راہ نما منوج کوٹک نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’’نئی پارلیمنٹ ہاؤس میں دکھایا گیا ہے کہ اکھنڈ بھارت ایک طاقت ور اور خود انحصار ہندوستان کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘
حکومت کے ترجمان ارندم باغچی کا کہنا ہے کہ ’’یہ دیواری تصویر اشوک سلطنت کی عکاسی کرتی ہے اور اُن کے ذریعے اختیار کردہ اور تشہیر کردہ ذمے دار اور عوام پر مبنی طرزِ حکم رانی کے تصور کی تجسیم ہے۔‘‘
اِکھنڈ بھارت یا اکھنڈ ہندوستان کے قیام کی تحریک ہندو قوم پرست تنظیموں مہا سبھا، انقلاب فورم، راشٹریہ سَویم سیوک سنگھ (RSS)، وشو ہندو پریشد، شیوسینا، ہندو سینا، ہندو جنجاگرتی سمیتی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے جاری رکھی گئی ہے۔ اِس خواب نے مودی اور انتہا پسند تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کی پالیسیوں کے زیرِ اثر اندرونِ ملک اقلیتوں کی زندگیوں کو مخدوش کر دیا ہے اور ہمسایہ ممالک کے لیے بھی بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے ۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ‘‘ (RAW) کے بارے میں اکثر الزامات یہ ہیں کہ وہ ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کے پار قتل و غارت گری اور عدم استحکام پھیلانے میں ملوث رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ تاریخی طور پر مختلف کشیدگیوں اور تصادموں میں بھی اس کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ جس بھارتی حکومت کا ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا خواب ہے، ہم اسی طرزِ عمل کی مشابہت اسرائیل کے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نظریے میں دیکھتے ہیں۔
اسرائیلی روایت کے مطابق، وہ خطہ جہاں آج اسرائیل واقع ہے، 3 ہزار سال پہلے سے یہودی تاریخ کا منظر رہا ہے۔ اُن کے پہلے بادشاہوں میں شاہ شاؤل، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل تھے، جن کے حسنِ حکومت اور ثقافتی ترقی کے قصے روایات میں محفوظ ہیں۔ تاریخی دعوؤں کے مطابق 931 قبلِ مسیح کے قریب شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی اختلافات اور بھاری ٹیکسوں کے سبب مملکت تقسیم ہو گئی……شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہوداہ۔ شمالی مملکت اسرائیل تقریباً 209 سال بعد (تقریباً 722 قبلِ مسیح) اشوری حملے کے نتیجے میں ختم ہوئی، جب کہ جنوبی مملکت یہوداہ 586 قبلِ مسیح میں بابلی بادشاہ نبوکد نصر کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔
یہودی بعض اوقات اِس خطے کو ’’اراضیِ اسرائیل‘ (Land of Israel) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اُن کا یہ نظریہ موجودہ اسرائیل کی جغرافیائی سرحدوں سے کہیں وسیع ہے: سرحدیں لبنان سے جنوب کی سمت میں خلیج فارس یا سعودی صحراؤں تک اور بحیرۂ روم سے لے کر دریائے فرات (عراق کے حصے تک) تک پھیلتی دکھائی جاتی ہیں۔ صیہونیت کے تاریخی بیانیے اور اس کی سرحد بندی کے مطالبات نے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے تصور کو پروان چڑھایا اور ریاستِ اسرائیل کے قیام کے بعد بعض حلقے اس نظریے کی تکمیل کے لیے مختلف سیاسی و عسکری حربے اختیار کرتے رہے ہیں۔
سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک نقشہ تھا، جو اُنھوں نے بیت المقدس میں کسی ملاقات میں فلسطینی راہ نما محمود عباس کو دکھایا تھا۔ وہ ملاقات سنجیدہ اور پیچیدہ اُمور کا پیش خیمہ بن سکی۔ اسی موضوع کے تناظر میں سب سے اہم حوالہ ڈیوڈ بین گوریون کا مکتوب بھی مانا جاتا ہے، جس میں بعض مبصرین کے نزدیک صیہونی منصوبہ بندی کے ابتدائی ارادوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ بین گوریون کے خطوط و بیانات میں یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ جزوی یہودی ریاست کو وہ آغازِ راہ سمجھتے تھے اور اس راہ پر طاقت کے ذریعے وسعت اختیار کرنے کے ارادے ملتے ہیں۔
اسرائیل کے موجودہ بعض راہ نماؤں، جن میں نیتن یاہو کا نام آتا ہے، نے بھی بعض اوقات اس خطے میں بہ حالی یا توسیع پسندانہ نظریات کو خفیف یا صریح انداز میں بیان کیا ہے اور یہ نظریات منطقی طور پر خطے میں کشیدگی پھیلانے کا موجب ہیں۔ یہودی ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بعض اوقات عسکری مہمات اور جارحیت اختیار کی گئی اور یہ عمل عرب و اسلامی ممالک میں شدید بے چینی اور ردِ عمل کا باعث بنا ہوا ہے۔
دوسری جانب عرب ریاستوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر، کی امریکی معیشت اور سلامتی کے ساتھ قریبی وابستگی نے اُنھیں امریکہ کے قریب کر دیا ہے۔ بڑی سرمایہ کاری، اربوں ڈالر کی عسکری خریداری اور امریکی سفارتی تحفظ نے ان تعلقات کو پروان چڑھایا ہے۔ ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ نے بھی خطے میں بعض اتحاد اور مفاہمت کے نئے زاویے فراہم کیے ہیں، مگر ان معاہدوں نے بعض مواقع پر فلسطینی مسئلے یا اسرائیلی جارحیت کے سامنے کوئی کلیدی حل فراہم نہیں کیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی صدیوں پر محیط روایت ہے، لیکن قطر پر کسی ممکنہ اسرائیلی حملے کے بعد سعودی ردِ عمل کے امکانات اور حدود پر سوالات پیدا ہوئے۔ اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات رہتے آئے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس وہ سیاسی، معاشی اور عسکری صلاحیت موجود ہے کہ وہ امریکہ یا اسرائیل جیسی سپر پاؤرز کے خلاف کھل کر کھڑا ہوسکے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ایسی جامع استطاعت نہیں کہ وہ اکیلا امریکہ سے ٹکر لے اور اسی طرح یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ اگر کبھی عالمی سطح پر بڑا تنازع کھڑا ہوا، تو سعودی عرب اور پاکستان مل کر بھارت کے خلاف ایک کھلم کھلا عسکری اتحاد اختیار کر دیں۔ یہ منطقی طور پر غیر حقیقی اور عملی طور پر مشکل امر ہے۔
یہ بات بھی چونکانے والی ہے کہ اگر سعودی عرب نے کسی خطرے کے تدارک کے لیے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا، تو ممکن ہے کہ اسرائیل بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھارت کو ایک قریبی شراکت دار کے طور پر دیکھے۔ بالآخر حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پاکستان خود کو کسی بڑے ’’عالمی سرد محاذ‘‘ (Global Cold War Front) میں تنہا سنبھالنے کے لائق دیکھتا ہے ، اور نہ سعودی عرب کے پاس ایسی داخلی یا بیرونی سیاسی وجوہات موجود ہی ہیں کہ وہ اپنے مفادات کے لیے خود کو کسی ایسے معرکے میں کھڑا کر لے، جب کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان بعض ابتدائی اور لائحۂ عمل کی مشترکیاں انہیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتی ہیں۔
ایک طرف اکھنڈ بھارت کا خواب ہے اور دوسری طرف گریٹر اسرائیل کا تصور، دونوں ہی بڑے جغرافیائی اور نظریاتی اہداف ہیں، جن کے حصول کے لیے متعلقہ قوتیں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو سکتی ہیں۔ ایسے ’’خواب‘‘ جغرافیائی حدود اور سیاست کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں…… اور ان کے سائے میں عام آدمی، خطہ اور ریاستیں ایک غیر یقینی اور تلاطم زدہ مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










