فضل رازق شہاب: ایک عہد کا نام

Blogger Sajid Aman

قارئین! قومیں بانجھ تب ہوتی ہیں، جب اُن میں علم و فن سے محبت ختم ہوجائے۔ یوں تاریخ سے رغبت معدوم رہتی ہے اور اسلاف کی عظمت کا وزن دل پر نہیں رہتا؛ حال بے حال ہو جاتا ہے اور مستقبل غیر یقینی بن جاتا ہے۔
وہ قومیں گم ہو جاتی ہیں، جو صاحبِ علم کی جگہ صاحبِ دولت اور اثر رسوخ والوں کو عزت دینے لگیں۔
وہ قومیں گونگی ہوجاتی ہیں، جنھیں اپنے ماضی کا پتا نہ ہو۔
وہ قومیں اندھی ہوجاتی ہیں، اپنا آنے والا کل نہیں دیکھ پاتیں جو اپنے گزرے کل کے اچھے اور برے کے ادراک سے محروم ہوں۔
وہ قومیں اپنا محاسبہ نہیں کرسکتیں، جن کے سامنے ماضی کھلا نہ ہو، حال میں احتیاط نہ ہو اور مستقبل کے لیے فکر موجود نہ ہو۔
تاریخ سے ناتا جوڑے رکھنے والی شخصیت فضلِ رازق شہاب صاحب کا دمِ غنیمت ہے کہ وہ بول سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں اور بہترین ناقد بھی ہیں۔ تاریخ اور گرد و پیش پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ہماری خوش بختیہے کہ ہمیں شہاب صاحب کا ساتھ میسر ہے۔ ہم عہدِ شہاب میں زندہ ہیں۔ سوات کی تاریخ پر اُن کا کام اُن چند افراد میں شامل ہے، جنھوں نے یہاں کی تاریخ، تمدن اور ثقافت کو اولاً مختلف اخباری کالموں کی شکل دی، ثانیاً اُنھیں کتابی شکل دی۔
شہاب صاحب کی زندگی بہ ذاتِ خود سوات کی تاریخ ہے۔ عکسِ ناتمام اُن کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے اور انگریزی زبان میں "Never Ever Dream” (کبھی خواب نہ دیکھنا) اُن کی خودنوشت سوانحِ حیات ہے، جو ایک طرح سے ریاستِ سوات اور بعد از ریاست کا عینی شاہدانہ احاطہ ہے۔ یہ سوانح (Never Ever Dream) اب تک مطبوعہ شکل اختیار نہیں کرپائی، مگر سوات انسائیکلوپیڈیا کی ویب سائٹ پر سافٹ حالت میں موجود ہے۔البتہ محترم ریاض مسعود صاحب نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا، جو روزنامہ آزادی میں قسط وار چھپ چکا ہے۔ نیز لفظونہ ڈاٹ کام پر مذکورہ ترجمہ اب بھی موجود ہے۔
شہاب صاحب ’’سوات انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں مسلسل لکھتے چلے آرہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ’’لفظونہ ڈاٹ کام‘‘ کے لیے اُن کی تحاریر بھی قابلِ مثال ہیں۔
سوات کی اہم شخصیات کے بارے میں شہاب صاحب کا اندازِ بیاں ایسا دل کش ہے کہ احترام و عقیدت لفظ لفظ سے جھلکتی محسوس ہوتی ہے۔ اخبارات میں اُن کے قطعات برمحل رہے اور ایک عرصے تک روزانہ شائع ہوتے رہے۔ کتابوں کے مصنف، تاریخ داں، ناقد، صحافی اور دانش ور کے طور پر اُن کی دو کتابیں ابھی شائع ہونی ہیں، جو سوات کے لیے تحفہ ثابت ہوں گی۔ عزت مآب ڈپٹی کمشنر سوات، جنید خان، کی علم اور سوات دوستی کا یہ ثبوت ہے کہ اُنھوں نے ان کتابوں کے شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ افسوس کہ ایسا ہوتا…… مگر شہاب صاحب نے خود شائع نہ کرنے پر اصرار کیا۔
جہاں فضل رازق شہاب کا قلم سوات کی تاریخ کو امر کر رہا ہے، وہاں جنید خان صاحب کا خلوص بھی گواہی دے گا کہ اُنھوں نے مٹی کا وہ قرض ادا کیا، جو واجب بھی نہیں تھا۔
فضل رازق شہاب کے نقوش اہلِ علم و دانش اور صحافیوں پر بہت گہرے ہیں؛ کئی محترم لکھاری ان کے اندازِ تحریر و بیاں کی پیروی کرتے ہیں، جو خود فضل رازق شہاب کی عظمت کا اعتراف ہے ۔ شہاب صاحب آرتھرائٹس کے عارضے کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہیں اور جب تکلیف حد سے بڑھ جاتی ہے، تو اپنی کیفیت سپردِ قلم کرتے ہیں۔ ایسے میں اُن کا مہربان قلم دل موہ لینے کی بہ جائے جگر کے پار ہوتا ہے؛ اُن کا درد انسانوں کے اس جنگل میں پُراَسرار سکوت اختیار کر لیتا ہے۔ کئی دل اُن کے درد میں رنجیدہ ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں شفائے کاملہ عطا فرمائے؛ اُن کی اچھی صحت اور لمبی عمر قوم کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم کو بانجھ ہونے، گم ہونے، اندھا ہونے اور گم راہ ہونے سے محفوظ رکھے اور آپ کی شخصیت کو تمام خوبیوں کے ساتھ سلامت رکھے، آمین!
ایک ریاستی ملازم کے بیٹے، ایک شاہی افسر، ایک انضمام شدہ ریاست کے افسر اُن کے قلم سے سوات کی تاریخ، شان اور شوکت اس طرح جلوہ گر ہوتی ہے کہ قاری خود کو مخصوص منظر میں موجود محسوس کرتا ہے۔ اُن کی آنے والی کتابوں کا شدت سے انتظار ہے؛ شاید یہ انتظار، انتظار ہی رہ جائے۔ اُن کا لکھا اس لیے بھی معتبر اور اہم ہے کہ نہ صرف وہ تاریخ لکھتے ہیں، بل کہ وہ خود اُس تاریخ کا حصہ ہیں، جسے وہ قلم بند کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اُن کی آپ بیتی سوات کی تاریخ ہے، تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
میرے لیے، میرے والد صاحب کے بعد، وہی ہیں جن سے میں راہ نمائی لیتا ہوں؛ وہ میرے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ افسوس کہ آواز کا رشتہ اب محدود ہو گیا ہے۔ وہ اونچا سننے لگے ہیں اور مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ میری آواز اُن کی آواز سے بلند رہے؛ مگر جب اُن سے بات کرنی ہو، تو لکھ کر پوچھنا پڑتا ہے۔ کچھ سوالات مجھے اُن سے کرنے ہیں…… شاید کبھی نہ کر پاؤں……! اُنھوں نے اپنے اردگرد کی ہر چیز کا ذکر کیا، ان کے قلم نے بہت وسیع احاطہ کیا…… مگر اپنی شریکِ حیات کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ ہماری روایتی معاشرتی زندگی کا اثر نہیں ہو سکتا؛ گو کہ میں حقیقت سے واقف نہیں، مگر مجھے لگتا ہے کہ جب آپ نے ہر بات لکھی ہے، تو اُس انسان کے بارے میں تفصیلاً نہ لکھ کر زیادتی کی ہے۔
کچھ اور سوالات بھی ہیں، جو مَیں نے اپنی دیوانگی میں تخلیق کیے ہیں اور شاید وہیں رہ جائیں……شاید کبھی نہ پوچھ سکوں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے