سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں، بھیڑ ہے، تم بھی نکل سکو تو چلو
عام طور پر ساٹھ سال کی عمر میں سرکاری ملازم کو ادارے ریٹائر کر دیا کرتے ہیں کہ ’’جا بابا، ہن گھر بہہ کے آرام کر……!‘‘ مگر پتا نہیں پہاڑوں کا یہ عشق کیسا روگ ہے کہ جو سٹھیانے کے بعد بھی جواں ہی رہتا ہے ۔
عشق لوہارا تازہ ریندا
بھانویں داڑھی ہو جائے چٹی
پہاڑوں کا عشق نہ صرف جواں رہتا ہے، بل کہ جواں رکھتا بھی ہے۔ گرچہ اب چنگی طراں سیدھا ہو کر چلا نہیں جاتا، گوڈوں گٹوں میں بھی کڑ کڑاہٹ ہے۔ تھوڑا زیادہ چل لوں تو اُن میں ٹیس اُٹھتی ہے، مگر پھر بھی ہر سال رہا نہیں جاتا اور جوں توں کر کے رڑتا کھڑتا دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکل جاتا ہوں۔ ان دوستوں کی بھی مہربانی کہ وہ مجھے برداشت کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان (جی بی) ایک نشہ ہے۔ ایک ایسا نشہ کہ جب تک سال میں کم از کم ایک بار وہاں جا کر اسے نہ چکھوں، نشہ پورا نہیں ہوتا۔ بابوسر پاس نشے کا ایک ایسا بیرئیر ہے کہ جو اسے ایک بار توڑ کر جی بی میں جا اُترتا ہے۔ وہ پھر اُس کے بعد جی بی سے پہلے بریک نہیں لگا سکتا۔
کاغان ناران کا علاقہ بہت خوب صورت ہے۔ سردی، بادل، میڈوز، گلیشیر، ندی، نالے، گھنے جنگلات، دل کش موسم اور یہاں رہنے والے لوگ سبھی بہت خوب صورت ہیں…… مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ کہتا ہے: چل جی بی چل۔ جی بی کی خمار آلود ہواؤں کا پکا سگریٹ پی۔ اس کے لذیذ ترین اور روح افزا پھلوں کا من و سلوا کھا۔ اس کے گنگناتے جھرنوں اور آسمانی بلندیوں سے گرتی آبشاروں، سدا رواں دواں رہنے والے قلقل مینا اور چھم چھم بہتی ندی نالوں کے جام چڑھا۔ اپنی پیاسی آنکھوں کو دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹیوں کے جام پلا۔ اس کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوش بو کو اپنے من میں بسا۔ اس کے بل کھاتے رستوں پر گھوم کر، ہر سو بچھی قدرت کی صناعی پر جھوم کر اور اس کی آوارہ راہوں کی خاک چوم کر جھومتا ناچتا گھومتا چلا جا۔ جب تک کہ سرحدی ناکے تجھے واپس نہ دھکیل دیں۔
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
80-1979ء سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی ایک ایسا سال ہو جب مَیں اس کے برف پوش پہاڑوں سے ملنے نہ گیا ہوں گا…… مگر جی ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔ پتا نہیں ان پہاڑوں میں ایسا کون سا جادو ہے، جو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مانا کہ رستے خطرناک ہیں۔ سڑک کے ساتھ سیکڑوں فٹ گہری کھائیاں ہیں۔ راستے پھسلن بھرے، جن پر سے جھرنوں کا پانی بڑی تیزی سے کوندتا ہوا دریا برد ہوتا چلا جاتا ہے۔ بابوسر کی اُترائیاں چڑھائیاں جان لیوا ہیں۔ کم زور دل اور ماٹھی گاڑی والے حضرات تو اسے شجرِ ممنوعہ سمجھ لیں۔
بابوسر کی جنت سے لے کر چلاس تک 45 کلومیٹر کی مسلسل اترائی پر سفر کرنا آسان نہیں ۔ پھپھری کانپ جاتی ہے۔ گول گول گھومتی اُترائیوں پر بریک لگانا پڑتی ہے۔ ہر دو تین اُترائیوں کے بعد بریک لیدر گرم ہو کر بو مارنے لگ جاتے ہیں۔ جب تک کہیں پر رُک کر، انھیں آرام دے کر ٹھنڈا نہیں کیا جاتا۔ یہ جان لیوا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح واپسی پر چڑھائیاں چڑھتے ہوئے گاڑی کا شدید زور لگتا ہے۔ ذرا سی بد احتیاطی سے نہ صرف گاڑی کا انجن دھواں مار جاتا ہے، بل کہ بعض اوقات اس کے بہت خوف ناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اور پھر اس سال تو بابوسر گاؤں کے پاس تھک نالے میں آسمانی آفات کے نتیجے میں آنے والی خوف ناک اور جان لیوا طغیانی نے بہت سی انسانی جانوں کو نگل لیا۔
چلاس کی ساڑ دینے والی دوزخی گرمی کو ہمت و حوصلے سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سال یہاں کا درجۂ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر تک چلا گیا تھا۔ گنی سے آگے مٹی کے پہاڑ ہیں، جو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ہمہ وقت گرنے کو بے قرار ہوتے ہیں۔ گنی سے آگے گونر داس، بونر داس کے فارمز، تتا پانی وغیرہ سے لے کر راکھیوٹ برج تک والا یہ سارا علاقہ شدید گرم ہوتا ہے۔ اس دوزخی حصے کا سفر اس سفر کا سب سے مشکل حصہ ہوتا ہے…… اور پھر دوسری طرف عین نیچے دھاڑتے دریائے سندھ کا ساتھ برداشت کرنا کسی خالہ جی کا گھر نہیں، جس کے کنارے کنارے چل کر سکردو تک کا اگلا سارا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ اسے سنگ کھبب یونہی تو نہیں کہا جاتا ہے۔ سڑک کے ایک طرف اپنے شکار کی منتظر دریائے سندھ کی منھ کھولے بھوکی پیاسی دھاڑتی موجیں، جب کہ سڑک کی دوسری جانب آسمانی بلندیوں کو چھوتے اونچے اونچے پربت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انھی پہاڑوں میں دنیا کی نویں بلند ترین پہاڑی چوٹی ہے، جسے نانگا پربت کہا جاتا ہے…… جو اپنی خطرناکی میں بدنامِ زمانہ ہے۔
شاہ راہِ ریشم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، جس کو اس بات پر کوئی شک ہو، وہ اس پر سفر کر کے دیکھ لے۔ جہاں پر یہ قدم قدم پر ڈراتی ہے، وہاں اس پر سفر کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ منظر نامے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی دریائے سندھ اس کے ساتھ بغل گیر ہوتا ہوا جڑ کر بہتا نظر آتا ہے، تو کہیں نیچے بہت نیچے پاتال میں جا گرتا ہے۔ جو ٹنوں کے حساب سے وزنی عظیم الجثہ پتھر اپنے ساتھ یوں لڑھکاتا ہوا لیے جاتا ہے کہ جیسے کوئی فٹ بالر اپنے فٹ بال کو بھگاتا ہوا مخالف کی پوسٹ پر حملہ آور ہوتا ہو۔ طغیانی کی صورت میں تو یہ اور بھی دہشت ناک ہو جاتا ہے۔ اس کے کناروں پر بسی بڑی بڑی بستیاں، جنگل، ویرانے اور شاہ راہِ ریشم اس کی فقط ایک برقی کی مار ہوتے ہیں۔
اسی راستے پر دنیا کے سب سے اونچے تین پہاڑی سلسلے باہم ملتے ہیں۔ جہاں ایک طرف سے دریائے سندھ قراقرم اور ہمالیہ کو تقسیم کرتا ہوا وارد ہوتا ہے، تو دوسری طرف سے دریائے گلگت ہندوکش کے پانیوں سمیت سندھ ساگر میں گرتا ہے۔
جگلوٹ سے آگے جگلوٹ سکردو روڈ اپنی خطرناکی کی بنا پر دنیا بھر میں بدنام ہے…… جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ لوگ سکردو کی طرف جاتے بس یا وین پر ہیں، مگر آتے اخباروں پر ہیں۔ اب تو پھر بھی جگلوٹ تا سکردو میٹلڈ روڈ بن جانے سے یہ کچھ کم خطرناک ہو گئی ہے، مگر پھر بھی اس کے سر پر منڈلاتے بھربھرے، کچی مٹی والے اور ایکسپائرڈ پہاڑوں کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ جوں ہی کوئی تیز ہوا کا جھونکا آتا ہے، یا رم جھم برسات برستی ہے، یہ خود تو گرتے ہی ہیں…… ساتھ میں ٹنوں کے حساب سے مٹی، درخت اور پتھروں سمیت سب کو گھسیٹ کر نیچے لا گراتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس سڑک پر سفر کرنا بہت غیر یقینی سا ہوتا ہے۔ جب جی چاہے یہ سندھ ساگر کی مست الست موجوں کی شرابِ طہور کے جام لنڈھانے مستی میں جھومتے نیچے کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں۔ پھر چاہے کوئی اُن کے نیچے آ کر مرے، زخمی ہو جائے، یا بچ نکلے…… انھیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔
اے ساگر کی لہرو
ہم بھی آتے ہیں ٹھہرو
بعض جگہوں پر دریائے سندھ اور جے ایس آر روڈ کے بیچ کئی سو فٹ کا فرق ہے۔ دریائے سندھ بہت نیچے جا کر خاصی گہرائی میں بہتا ہے۔ اس کا دھاڑتا ہوا گدلا پانی دیکھ کر ہی خوف آتا ہے۔ اگر کسی جگہ سے یہ بہت کم چوڑا نظر آتا ہے، تو سمجھ جائیں کہ یہاں پر اتنا گہرا بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دیامر کے مقام پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانے کے لیے جب یہاں پر دریائے سندھ کی گہرائی ناپی گئی، تو وہ 80 فٹ سے لیکر 120 فٹ تک نکلی تھی۔ لہذا اسے کبھی ایزی نہ لیں۔
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ”Difficult roads often leads to beautiful destination.” یعنی مشکل راستے اکثر خوب صورت منزلوں تک لے جاتے ہیں۔ راستہ خطرناک ہے، تو کیا ہوا…… اس پر سفر کر کے سکردو، ہنزہ، نگر، وادئی یاسین اور پھنڈر جیسی دل کش و دل نشیں اور جنت نظیر وادیوں کا ثمر بھی تو ملتا ہے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










